الحمدللّله رب العالمين والصلاة والسلام على سيدنا محمد رحمۃ للعالمین
مسلم شریف کی ایک معروف حدیث ہے کہ نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
"الدین النصیحه ” دین سراسر خیر خواہی کا نام ہے۔بندوں کی آپس میں خلوص و مہربانی ہی دین کی بنیاد ہے۔
الله تعالى کو اپنی مخلوق میں سب سے پیاری تخلیق انسان ہے۔ انسانوں میں سب سے پیارے انبیاء ہیں۔ انبیاء میں سب سے زیادہ پیارے اور محبوب نبی محمد صلى الله عليه وسلم ہیں۔ جس سے پیار ہوتا ہے اس کی تربیت بھی اتنی ہی پیار اور توجہ سے ہوتی ہے اس کی چھوٹی سی غلطی بھی نظر انداز نہیں کی جاتی۔ قرآن پاک میں متعدد جگہ پہ انبیاء کو معمولی سی بات پہ توجہ دلائی گئی اور اس کی نشان دہی کی گئی ہے۔ یہ الله تعالى کی اپنے برگزیدہ بندوں سے محبت کا مظہر ہے۔ سورہ عبس میں ایک نابینا کے ساتھ نبی اکرم صل اللہ علیہ وسلم کا بے رخی برتنے یا سورہ کہف میں” ان شاء الله "کہنا بھول جانے پہ احساس دلایا گیا۔جو محبت الله تعالى کی طرف سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا ہوئی وہی پر خلوص محبت الله کے نبی کو اپنی امت سے ہے۔ وہ مسلمانو ں کے اس قدر خیر خواہ ہیں کہ امت کے افراد اپنے لئے خود بھی اتنے خير خواہ نہیں ہو سکتے۔ اسی طرح والدین، استاد، مرشد، دوست اور محبت کرنے والے رشتوں کے دلوں میں بھی الله تعالی یہی جذبہ رکھ دیتے ہیں۔ اگر نالائق، نافرمان ، ضدی سر کش ظالم، متکبر شخص کسی نبی کی امت کا فرد ہو تو نبی بھی پیغام پہنچانے کا فرض ادا کرکے بری الذمہ ہو جاتا ہے۔ اسی طرح کسی کی نافرمان اولاد ہو نالائق شاگرد ہو وہ اپنا راستہ الگ کرلے تو کوئی کسی پر زور زبردستی کرکے ہدایت نہیں دے سکتا۔لیکن لائق فرماں بردار، سمجھ دار نیکی میں سبقت لے جانے والا فرد نبی کے لئے، والدین کے لئے، مرشد اور محب اور استاد کے لئے بہت اہم ہوتا ہے اس کی زیر، زبر ،پیش کی غلطی بھی قابل مواخذہ ہوتی ہے۔ اسی لئے جب دو فریق،یا بچے مخاصمت کا شکار ہوتے ہیں تو زیادہ نصیحت اسے کی جاتی ہے جو سمجھ دار ہو تاکہ اس کی شخصیت کا وقار قائم رہے اس کے نمبر کم نہ ہوں اس کی جنت میں کمی نہ آئے۔ مگر جو اس خیر خواہی کو سمجھنے پہ راضی نہ ہو ، اس سے اعراض کاحکم ہے
(اعرض عن الجاهلین)
خوش قسمت ہیں وہ لوگ جن کو ایسے والدین، استاد، مرشد یامحبت کرنے والے دوست ،بہن بھائی مل جائیں جو ان کے معمولی سے نمبر کٹ جانے پہ بھی فکر مند ہوں،نصیحت کریں ان کا ہر لحاظ سے دائمی و اخروی بھلا چاہیں۔
آج امت مسلمہ میں "الدین النصیحه ” کے تقاضے کما حقہ پورے نہیں ہو رہے،خلوص، اول تو کہیں موجود نہیں اور اگرکہیں ہے تو اس کا یقین نہیں کیا جاتااور نہ قبول کیا جاتا ہے۔عوام الناس مجموعی طور پر اس احساس اور فکر سے غافل ہیں کہ ان پہ ظالم کیوں مسلط ہیں؟ جب لوگوں کے درمیان نصیحت، خلوص اور بے غرض مہربانی کا شعار نہ رہے اور نصیحت کو قبول نہ کیا جائے تو اس کی سزا ظالم، خود غرض، مفاد پرست حاکموں کی شکل میں ملتی ہے۔جو حق شناس ہوگا اور اپنی عاقبت کے بارے میں فکرمند ہوگا اس کو خیر خواہی کا ادراک جلدی ہو جاتا ہے۔مگر جس نے خیر خواہی کو دشمنی جان لیا ہو اس کے انجام کا ذمہ دار وہ خود ہوگا وہ کوئی ایک فرد ہو اولاد ہو یا شاگرد یا کوئی قوم۔
سوچنے غور کرنے کی بات یہ ہے کہ کیا ہم انفرادی و اجتماعی طور پہ بے غرض پر خلوص، خیر خواہی، کے ساتھ دین اسلام کی تعلیمات پر عمل کرنے کی دعوت دینے والوں میں شامل ہیں ؟اور کیا دوسروں کی طرف سے دائمی خیر خواہی کے جذبہ کی ہم قدر کرتے ہیں؟
کیا ہمارے معاشرے میں محبت لینے اور دینے کا وہ جذبہ پروان چڑھ رہا ہے جس کی بنیاد "الدین النصیحه "ہے؟
.اللھم ارنا الحق حقہ وارزقنا اتباعہ و ارنا الباطل باطل وارزقنا اجتنابہ