الحمداللہ رب العلمین والصلوةوالسلام علی خاتم النبین۔
بخاری ومسلم کی معروف حدیث سے ہم سب واقف ہیں” الحیا ء شعبة من الایمان” یعنی " حیا ایمان کی ایک شاخ ہے.” نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اور معروف حدیث موءطا میں ملتی ہے کہ "ہردین کی کوئی بنیادی صفت ہوتی ہے جو اس کے ہر پہلو پہ غالب رہتی ہے اسلام کی صفت جو ہر پہلو پہ غالب ہے وہ "حیا” ہے۔ ” الحاکم ترغیب میں نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث” حیا” کی مزید وضاحت کرتی ہےکہ” حیا اور ایمان دونوں باہم ملے جلے ہیں دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم ہیں ایک چلا جائے تو دوسرا بھی چلا جاتا ہے۔”
حیا کا احساس انسان کے دل میں اجاگر رہے تو وہ حقوق الله اور حقوق العباد میں جان بوجھ کر کوتاہی نہیں کرتا۔ حیا دراصل اس وفاداری کا نام ہے جو شرف انسانی کو ودیعت کی گئ ہے۔ جو وفا اس معاہدے اور وعدےسے جڑی محسوس ہوگی جس کو "عہد الست "کہا گیا ہے تو اپنی زندگی کا ہر پہلو اسی عہد کو وفا کرنے کی طرف مائل ہوگا اور احسن تقویم ہونے کے ناطے وہ اس عہد سے منہ موڑنے پہ حیا محسوس کرے گا۔ انسان کا اپنے رب سے ناطہ ہو یا باہم انسانوں کے درمیان رشتے ناطے،میل جول لینا دینا سب لحاظ، مروت، وفا کا مرہون منت ہے جس کا دوسرا نام حیا ہے۔اسی طرح یہ حیا افکار و خیالات سے شروع ہوکر اعضاء و جوارح تک پہنچتی ہے۔ بخاری شریف کی ایک اور حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ دراصل ہر بھلائی کا سرچشمہ حیا ہے۔ یعنی حیا خیر کے سوا کچھ نہیں لاتی۔ اور ہم سب اس سے بھی واقف ہیں کہ جب کوئی حیا نہ کرے تو پھر اس سے ہر قسم کی برائی متوقع ہے۔
حیا کا مادہ ہی انسان اور جانور میں فرق واضح کرتا ہے۔ ہر تہذیب کےسارے قواعد و ضوابط اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ حیا اس کی فطرت میں رکھی گئی ہے۔ اور شرف انسانی کی یہی ایک بنیادی وجہ ہے۔ معاملات کی دیانت کو بھی حیا کہتے ہیں اور نگاہ کی دیانت بھی اسی کے تحت آتی ہے۔ جس پہ آپ نگاہ ڈالنے کے مجاز نہیں وہ کیوں ڈالیں؟ جس مال کو لینے کے آپ حقدار نہیں جس زندگی کے آپ مالک نہیں اس پہ بے جا تصرف یا اپنی مرضی سے تصرف کرنا بد دیانتی بد لحاظی اور سراسر بے حیائی ہے۔ جس کو اپنے رب الرزاق کے ساتھ بے مروتی بد لحاظی، بے ایمانی، بد عہدی کا خوف نہیں۔ اس الله الخالق سے حیا نہیں آتی تو وہ اپنے آپ سے کیا حیا کرے گا یا اپنے جیسے انسانوں سے کیا حیا کرےگا؟
یہ جو ہم دن رات بے حیائی کا رونا روتے ہیں اس کی بنیاد دراصل اپنے رب سے غافل ہونا ہے اپنے پیارے رب کو بھلا دینا ہے تو پھر رب اس بے مروت بے حیا بندے کو اس شرف انسانی کا احساس بھلا دیتا ہے جو انسانوں کو عطا کیا گیا ہے ایسا بندہ اپنے آپ سے غافل ہو جاتا ہے۔جس کو اپنا شرف اپنی عزت اپنا وقار اپنی اہمیت بھول گئ ہو،اس کا ہاتھ شیطان پکڑ لیتاہے۔اور اس کو ان راہوں پہ گھسیٹتا پھرتا ہے جس کا انجام رسوا کن عذاب سے کم نہیں ہوتا۔ بے حیائی کے سارے کام وہ خلوت میں ہوں یا جلوت میں ابتدائی مرحلے میں ہوں یا انتہائی مرحلے میں سب اللہ تعالی نے حرام کر دئے ہیں۔ جب اللہ تعالی کے حرام کردہ امور کو اجتماعی طور پہ قبول کر لیا جاتا ہے تو مختلف طریقوں سے لوگوں کو تنبیہ کی جاتی ہےکہ وہ اللہ رب العزت کے غضب سے بچنے کی فکر کریں۔جب اجتماعی ماحول میں بے حیائی پھیل جائے اور حدود پار کر لی جائیں تو تنبیہات سے بھی بے حس اور غافل کر دئے جاتے ہیں یہ بھی عذاب کی ایک قسم ہے۔
( ولا تکونوا کالذین نسواللہ فانساھم انفسھم اولئک ھم الفسقون)
غور کرنے کا مقام یہ ہے کہ انفرادی یا اجتماعی طور پہ ہم بے حس ، اپنے آپ سے غافل تو نہیں کر دئے گئے۔
اللھم اھدنا صراط المستقیم
اللہ تعالی ہمیں بے حیائی فواحش و منکرات سے بچائے ۔اور اپنے نفس سے غافل نہ کرے آمین