” تنگئ نفس کے مضمرات اور علاج ”
تنگئ نفس سارے اخلاقی عیوب کی جڑ ہے. نئے تعلقات نبهانے کے لئے اس عیب سے چهٹکارا پانا لازمی ہے،اور اس سے پہلے اس کے متعلق جاننا ضروری ہے .
الله تعالیٰ نے سورہ الحشر آیت نمبر 9 میں فرمایا
(وَالَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ يُحِبُّونَ مَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِمْ وَلَا يَجِدُونَ فِي صُدُورِهِمْ حَاجَةً مِمَّا أُوتُوا وَيُؤْثِرُونَ عَلَىٰ أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ۚ وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ المفلحون
أنصار کی مہاجرین سے محبت اور دوسرے ضرورت مند کو اپنی ذات پر ترجیح دینے کی تعریف کی گئ ہے اور کامیابی کی ایک کلید بتائ گئ ہے کہ "جو شخص اپنے نفس کی حرص سے بچا لیا گیا وہی کامیاب لوگوں میں شمار ہوگا. .اس سے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ الله رب العزت سے یہ دعا لازمی کرنا چاہئے کہ وہ ہمیں تنگئ نفس کے شر سے محفوظ رکهے.( اللهم الهمنی رشدی واعذنی من شر نفسی )
” شح ” میں دو باتیں پائ جاتی ہیں. ایک مال و دولت جمع کرنے کا حریص ہونا، دوسرے مال و دولت خرچ کرنے میں بخیل ہونا . جس میں یہ دونوں باتیں پائ جائیں اسے شحیح یا شحاح کہتے ہیں.
یہ عیب صرف مال و دولت کی ہوس تک محدود نہیں رہتا بلکہ ہر معاملے میں سامنے آتا ہے .ایسے شخص میں تنگ نظری،تنگ ظرفی، سنگ دلی،بے مروتی، بد لحاظی ناشکری، بے صبری جیسی بری عادات پنپنے لگتی ہیں. ناقدردانی اس شخص کا شیوہ بن جاتا ہے.
تنگئ نفس کی پہچان یہ ہےکہ ایسا انسان
دوسروں سے توقع رکهتا ہے کہ سب اس کی جائز و ناجائز خواہشات کا خیال رکهیں اور اپنی حسب منشا ء توقعات پورا نہ ہونے پہ گلے شکوے طنز استہزاء جایز سمجهتا ہے اورنارض ہونا اپنا حق سمجهتا ہے ..اور خود کسی کی جائز توقعات پہ بهی پورا اترنا ضروری نہیں سمجهتا. .وہ مادی اشیاء ہوں،یا جزباتی. عزت و احترام ہو یا دیگر اخلاقی اقدار،لینے کے پیمانے بڑے اور دینے کے پیمانے چهوٹے رکهتا ہے یا سرے سے رکهتا ہی نہیں.
تنگئ نفس کی دوسری پہچان یہ ہےکہ انسان اپنی غلطی اور دوسرے کی خوبی کو تسلیم نہ کرے. اپنے اوپر تنقید اورکسی دوسرے کی تعریف برداشت نہ کر سکے. خود کو عقل کل سمجهے اور کسی کے مشورے کو بے وقعت سمجهے. لوگوں میں خود کو نمایاں کرنے اور کسی دوسرے برابر کے رشتے کو حقیر ظاہر کرنے میں کوشاں رہے. شریکے کے رشتے دار کو اپنا رفیق نہیں بلکہ صرف فریق ہی سمجهنے والے
لوگوں سے سب دور بهاگتے ہیں اور
الله تعالیٰ کو بهی اسے لوگ سخت ناپسند ہیں.دائمی کامیابی دنیا کی حاصل کرنی ہو یا آخرت کی اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو وسعت دل کی ہدایت کی ہے .
تنگئ نفس کی تربیت انسان کو خود ہی کرنی ہوتی ہے اسے اپنے اندر کی اخلاقی بیماریوں کے علاج کے لیے تیار کرنا ہوتا ہے. اپنے اخلاقی عیب کو اپنے آپ سے تسلیم کرانا ہوتا ہے. جب
تشخیص ہوجائے اور بیمار ی کا علاج شروع ہو جائے پرہیز مکمل ہو، الله سے استعانت طلب کرنے میں خلوص ہو تو اس بیماری سے نجات یقیناً ملے گی.
نئے رشتے نبهانے کے لئے اپنے دل کی دنیا وسیع کرنا وہ جہاد ہے جس سے دل کی سلطنتیں فتح ہوتی ہیں . اور جب اپنے دل کی دنیا وسیع ہوگی تو ہی اس میں دوسروں کے دلوں کی مزید سلطنتیں سما سکیں گی. اپنے متعلقین کا دل جیت لینا ہی سب سے بڑی کامیابی ہے.
تنگئ نفس کی بیماری کے علاج میں ایک کارآمد نسخہ یہ بهی ہے کہ اپنے دل کو اس بات پہ آمادہ کیا جائے کہ متعلقین کو شکریہ کہنے کی عادت ڈالی جائے. وہ آسانی جو آپ کو کسی نے فراہم کی وہ کتنی ہی معمولی کیوں نہ ہو شکریہ ادا کرنا واجب ہے. جب آپ کسی کی طرف سے معمول کی چهوٹی سی بات پہ شکریہ ادا کرتے ہیں تو دل میں خوشی کا احساس جاگتا ہے. یہی نیکی ہے اور ایمان کی نشانی ہے. اور اس نیکی کے چراغ سے مزید چراغ جلتے ہیں. اور دوسروں کے دل میں جگہ بنتی ہے.
خوش دلی سے رشتے نبهانا اسی وقت ممکن ہے جب نگاہ میں رشتوں کی اہمیت اور اس کی قدر ہوگی.رشتوں کی اہمیت اور قدر اس کو ہی ہوگی جس کو الله کے سامنے اپنے اعمال کی جواب دہی کا احساس ہوگا اور الله کی نظر میں پسندیدہ بن جانے کی لگن ہوگی. .اور جو یہ إحساس زندہ رکهے
کہ الله اسے بهی دیکھ رہا ہے اور اس کے مقابل کے رشتے یا شریکے کے رشتے کو بهی.اور الله جانچ رہا ہے کہ دونوں میں سے کس کا عمل احسن ہے؟(خلق الموت والحیوة لیبلوکم ایکم أحسن عملا )
مسابقت کے اس دور میں فلاح اسی کو ملے گی جو "فاستبقوا الخیرات ” کو نصب العین بنائے گا .
اگر کسی کو تنگئ نفس کے حامل لوگوں میں رہنے کی آزمائش سے گزرنا پڑے تو اس کے لئے میدانِ جہاد تیار ہے . پہلا کام اپنے نفس کی وسعت کا جائزہ لینا ہے. اور الله تعالیٰ سے اس وسعت میں مزید کشادگی اور استحکام کی التجا کرنی چاہئے. اور نئے رشتہ داروں کی خوبیوں اور ان رشتوں کی اہمیت کا ادراک کرکے ان کو تسلیم کرنا بنیادی کام
ہے. ان رشتوں کو حریف نہیں حلیف سمجها جائے ان کے مقام اور مرتبے کو ہٹانے یا ہلانے کی کوشش اپنے منفی سوچوں سے نہ کی جائے بلکہ منفی کردار کے حامل لوگوں کے ساتھ مثبت افکار و اعمال سے اعتماد قائم کیا جائے اپنا مقام اور مرتبہ چهین لینے کی بجائے اعزاز و اکرام سے ان کے اپنے ہاتھوں سے وصول کرنے کی کوشش جاری رکهی جائے. لوگوں کو اس خیال نے سکون کی دولت سے محروم کر رکها یے کہ آج کے دور میں اپنا حق اپنا مقام چهین کر ہی مل سکتا ہے یہ ایک منفی سوچ ہے.
تحریر :ڈاکٹر بشری تسنیم