"تربیت کا پہلا نکتہ”
الله رب العلمین نے مرد اور عورت کی تخلیق اس کی ذمہ داریوں اور مقصد حیات کے پیش نظر کی ہے. زہنی، جسمانی جزباتی اور نفسیاتی فرق اور حقوق و فرائض میں تقسیم بهی اسی نکتے کے تحت ہے.. جس طرح آنکھ دیکھنے اور کان سننے کے لئے ہے مگر دونوں عضو ایک ہی معاملے کا فہم بیک وقت دیتے ہیں.اسی طرح مرد کا دائرہ عمل الگ ہے اور عورت کی ذمہ داریاں کچھ اور ہیں. دونوں کا الگ الگ دائرہ عمل میں رہ کر اپنا کام سر انجام دینا در اصل ایک ہی مشترکہ مقصد کی تکمیل ہے..
پہلی بات جو کامیاب ازدواجی زندگی میں بنیاد ہے وہ دونوں فریق کو مع خاندان کے اپنے اپنے دائرہ عمل اور اس کے اندر رہتے ہوئے اپنے مقام اور مرتبے کی پہچان کا علم ہونا چاہئے. علم کا کوئی فائدہ نہیں جب تک اس پہ عمل نہ ہو. اور عمل کے لئے دوسروں کے تجربات سےمثبت فائدہ اٹھانا عقل مند ہونے کا ثبوت ہے..
والدین اپنی بیٹی کی تربیت میں پہلا قدم تنگئ نفس سے بچنے کی ترغیب سے اٹھائیں اور خود اس کا نمونہ بهی بنیں زبانی نصیحت کرنا پانی پہ تحریر ہے اور خود عملی نمونہ بن کے دکھانا پتھر پہ لکیر ہوتی ہے. خاندان میں قابل تقلید جوڑوں کی خوشگوار زندگی کے حسن عمل کو اجاگر کریں اور ناخوشگوار زندگی گزارنے والے جوڑوں کو سامنے رکھ کر کیس سٹڈی کروائیں.نو جوان بچوں سے مسائل کی گهمبیر خرابی کی وجوہات اور ان کا حل دریافت کریں.ان کی رائے لیں اور مثبت انداز فکر کی طرف راہنمائی کریں. عموماً یہی بات سامنے آتی ہے کہ تنگئ نفس کے مضمرات ہی فریقین کے درمیان معاملہ درست نہیں ہونے دیتے..
کسی لڑکی کے نفس کی تنگی نئے رشتوں کو قبول نہیں کرنے دیتی تو نبها کیسے سکتی ہے؟ اور سارے اخلاقی عیب کی جڑ تنگئ نفس ہے. جو اس سے بچ جاتا ہے وہی کامیاب ہےٌ ۚ وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ)(سورہ الحشر آیت 9)
اور زندگی کے ہر رشتے اور مرحلے میں کامیاب ہونے کا ربانی فارمولہ یہی ہے.
اگر ہم معاشرے میں باہمی تنازعات پہ غور کریں تو یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ نفس کی تنگی ہر بگاڑ کا سبب ہے. ہر نئے جوڑے کو نیا رشتہ استوار کرنے سے پہلے اپنے نفس کی تربیت کرنی چاہئے.
سسرال بهیجنے سے پہلے والدین کو خصوصاً ماں کو چاہئے کہ بیٹی کے مزاج سے تنگ دلی کا عنصر ختم کرے. توجہ ،محبت ہو یا مال اسباب جس قدر میسر ہو جائے اس کو کهلے دل سے قبول کرنے،اور شئر کرنے کی عملی مشق کروائ جائے. والدین بیٹی کو چھوٹی عمر سے ہی یہ تو باور کراتے ہیں کہ تمہارا اصلی اور اپنا گهر شوہر کا گهر ہے. اس جملے کو اٹھتے بیٹھتے سن کر لا محالہ لڑکی اس انتظار میں رہتی ہے کہ وہ گهر جو اس کا ہوگا وہ کب ملے گا. جب ملتا ہے تو وہ شوہر سمیت ملکیت کا جزبہ جنون بن جاتا ہے.لڑکی کو شادی کے بعد مالک ہونے کا إحساس دلانے کی بجائے حصہ دار ہونے کی یقین دہانی کرائ جائے. نئ جگہ پہ جا کر اپنا مقام بنانا اور اجنبی لوگوں کو اپنی زندگی میں شامل کرنے کی بہترین مثال انصار و مہاجرین کے درمیان مواخات ہے.. شہر کے باشندوں نے کهلے دل سے اپنے مال ومنال بلکہ اہل و عیال تک میں اجنبیوں کو حصہ دار بنایا.تو آنے والوں نے بهی ملکیت کے دعوے نہ کئے..اپنا مقام خودداری اور محنت کے ساتھ بنایا.. مؤمن معاشرے کی خوبی یہ ہے کہ اس میں ہرفرد” دینے والا” مزاج رکھتا ہے” لینے والا” نہیں.. یہ عطا کرنا اخلاق ہو یا مادی دنیا کی کوئی چیز ہمیشہ دینے والا ہاتھ ہی باوقار ہوتا ہے..عزت، وقار، مقام اور مرتبہ حاصل کرنے کی تمنا کا پورا ہونا دل کی تنگی کے ساتھ ممکن نہیں.
نبی کریم ص نے فرمایا الغنی غنی النفس. .یعنی امیری و تونگری تو نفس کی تونگری ہوتی ہے..یعنی نفس میں وسعت ہو دل کهلا ہو تو کم مال و دولت میں بهی انسان امیروں کی طرح خوشحال رہ سکتا ہے. دل کی وسعت دراصل دل کا سکون ہوتی ہے. دوسروں کے مال کو اپنا سمجھنا اور اپنے مال پہ سانپ بن کر بیٹھ جانا انسانی وصف کے خلاف ہے.جب دینے کا جزبہ پنپتا ہے ،دوسروں کو حق دینے کی کوشش کی جاتی ہے اور اپنے حق کو الله کی رضا کے لیے عطا کا چسکہ پڑ جاتا ہے تو الله اپنی عطا کے دروازے کهول دیتا ہے.. یہ عطا کرنے کا جزبہ، ایثار کی تڑپ مل جانا ایمان کا سب سے اعلیٰ درجہ درجہ ہے..
(لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّىٰ تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ ۚ وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ شَيْءٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ)
لڑکی کی شادی ہو چکی ہے یا نہیں ہوئی. .زیادہ عرصہ گزرا ہے یا کم. شادی رشتہ داروں میں ہوئ ہے یا غیروں میں..سسرال والے دین دار ہیں یا دنیا دار
بہترین زندگی گزارنے اور عزت کا مقام پانے کے لئے یہ پہلا نکتہ زہن نشین کر لیں اور اس پہ عمل کرنے کی کوشش اور مستقل مزاجی سے اس پہ استقامت کا اپنے آپ سے وعدہ کریں کہ دل کی تنگی سے اپنے آپ کو بچانا ہے..
@
مٹا دے اپنی ہستی کو گر کچھ مرتبہ چاہے
کہ دانہ خاک میں مل کر گل و گلزار ہوتا ہے