بیٹی کے لیے رشتے کی تلاش
دنیا کی پہلی عورت جب وجود میں لائ گئ تو اس کا سرپرست اس کا شوہر موجود تها. روز ازل سے عورت کسی ایک لمحے کے لئے بهی بے یارو مددگار ، تنہا یا لاوارث نہیں رکھی گئ. پہلی عورت کے لئے اس کا شوہر اس کا سر پرست اعلیٰ موجود تها. آدم سے حوا اور پهر اس جوڑے سے بے شمار مرد اور
عورتیں پیدا ہوئے اور رشتے اور تعلق کے سلسلے شروع ہوئے جو مسلسل خاندان برادری قبیلے قوموں کی شکل میں بڑهتے جارہے ہیں .یہ بهی الله کی خاص نشانیوں میں سے ایک ہے..
اب تک ہم ابن آدم کی بحیثیت شوہر ذمہ داریوں کی بات کرتے آئے ہیں بنت حوا کی بحیثیت بیوی کے جو ذمہ داریاں ہیں ان کا تزکرہ بهی ناگزیر ہے اس لئے کہ الله رب العزت نے حقوق و فرائض کو توازن کے ساتھ رکھا ہے..معاشرے کی پہلی اکائ گهر اور گهر کی پہل جس رشتے سے ہوتی ہے ان میں حقوق و فرائض کا توازن ہی وہ بنیاد ہے جس کے بر قرار رہنے سے دنیا فساد فی الارض سے بچ سکتی ہے.
آج کے دور کا بنیادی مسئلہ اچھے رشتوں کا دستیاب نہ ہونا ہے. اور اچھے رشتے کی تعریف ہر کوئی اپنے نفس سے پوچھتا ہے. حالانکہ رشتے کی تلاش میں وہی معیار مطلوب ہونا چاہئے جو الله اور اس کے رسول نے قائم کر دیا ہے. .اور اس کی ترتیب بهی واضح ہے..
تقویٰ. مال..حسب نسب.. شکل و صورت
رشتوں کی تلاش میں فی زمانہ مسنون ترتیب کو الٹ پلٹ کر دیا جاتا ہے یا من مانی تاویلیں پیش کی جاتی ہیں..تو نتیجتاً انجام بهی الٹ جاتا ہے. .
” کفو ” کا خیال رکھنا بهی عقل و دانش کا امتحان ہوتا ہے..اس "کفو "کی ترتیب بهی تقویٰ، مال حسب نسب اور شکل و صورت میں قائم رہے گی. اور تقویٰ کا معیار ترجیح ہوگا. اپنی بیٹی کی پسند کا خیال رکھنا والدین کی ذمہ داری ہے مگر بیٹی کی پسند کو مسنون معیار پہ رکھنے کے لئے اس کی تربیت کرنا اس سے زیادہ ضروری ہے.بیٹی کو معلوم ہونا چاہئے کہ وہ سرپرست کی رضامندی کے بغیر اپنی آئندہ زندگی کا فیصلہ نہیں کر سکتی. .اور سرپرست کو بهی اس بات کا پابند کیا گیا ہے کہ وہ بیٹی یا بہن کی رضامندی کے بغیر اس کی آئندہ زندگی کا فیصلہ نہیں کر سکتا باہم افہام و تفہیم سے فریقین ایک دوسرے ہہ اپنا نقطہ نظر واضح کر سکتے ہیں..ضد، انا، ہٹ دهرمی مومن کا شیوہ نہیں..الله اور اس کے رسول کی تعلیمات کے مطابق معاملات کو سلجھانے میں برکت بهی ہوتی ہے اور امن و سکون بهی. ..
کسی عالم سے پوچھا گیا کہ میں اپنی بیٹی کے لیے کیسا شوہر منتخب کروں تو انہوں نے جواب دیا
۔”جو خوف خدا رکھتا ہو،اگر بیوی پسند آگئی تو قدر کرے گا اگر اس کے دل کو نہ بهائ تو اللہ کے خوف کی وجہ سے ظلم نہیں کرے گا”۔
بیٹی کے والدین خصوصاً ماں کو یہ خیال رکھنا چاہئے کہ بیٹی کا جہیز وہ نہیں جو وہ اس کی پیدائش کے وقت سے جمع کر رہی ہے بلکہ اصل جہیز وہ تربیت ہے جو اس کے زندگی بهر کام آئے گی دنیاوی ساز و سامان آخر کب تک چلے گا؟ نیک تربیت نسل در نسل چلے گی اور والدین کے لئے صدقہ جاریہ ہوگی..بیٹی کی تربیت کو جز وقتی کورس نہیں سمجھنا چاہئے. موقع و محل کے لحاظ سے بدلتے ماں کے تیور اور معاشرتی معاملات میں طور اطوار، لب و لہجہ، غیبت، حسد، تنگئ نفس یا پهر اٹھتے بیٹھتے، چلتے پهرتے معاملاتِ زندگی کو مسنون طریقے پہ طے کرتے رہنا وہ جہیز ہوتا ہے جو
بیٹی کے قلب و زہن میں قطرہ قطرہ کرکے جزب ہوتا رہتا ہے.
بیٹی کو وسیع القلبی، حلم ،تحمل اور برداشت،ایثار
کی صرف زبان سے نصیحت کرنا کوئی معنیٰ نہیں رکھتا اگر اس نے ان سب صفات کا عملی مظاہرہ اپنے والدین خصوصاً ماں میں نہ دیکھا ہو.اور یہ بهی یاد رکھنا ضروری ہے کہ اخلاصِ نیت کے بغیر کی گئ کوئی بهی نیکی صدقہ جاریہ نہیں بن سکتی کیونکہ اس کے اثرات اولاد تک نہیں پہنچ پاتے..