مثالی شخصیت کی آبیاری
الله رب العالمين نے سورہ النساء کے آغاز میں فرمایا
"لوگو؛ اپنے رب سے ڈرو،جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا. اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں دنیا میں پهیلا دئے..”
اسلام میں نکاح کا مطلب دو افراد کی جزباتی جسمانی وابستگی کسی وقتی ہیجان کی تسکین کا ذریعہ نہیں بلکہ انتہائ اعلیٰ مقاصد کے حصول کا ذریعہ ہے..اور ہر دو صنف میں طبعی میلان اور کشش اس مقصد کے حصول میں کامیاب ہونے کے لئے آسانی کی صورت ہے..اور اس طبعی کشش کو حلال کرنے کی صورت باہم نکاح کرنا ہے..اور اسی رشتے کے نتیجے میں وہ امن سکوں، تحفظ، ایثار، ضبط و تحمل کا سازگار ماحول ملتا ہے جس میں آنے والی نسل کی پیدائش،پرورش تعلیم و تربیت رب کی رضا کے مطابق کرنا آسان ہو جاتی ہے اور یہی وہ مقصد وحید ہے جس کے لئے مرد و عورت کا جوڑا بنایا..
سیدنا آدم علیہ السلام کا شوہر کے مرتبہ کے بعد باپ کے مرتبہ پہ فائز ہوئے…الله تعالى نے شوہر کے لئے بیوی کو کهیتی سے تشبیہ دی ہے..کهیت میں بیج بونے سے پہلے زمین فصل کے لیے تیار کی جاتی ہے..پهر اس کی ہر طرح سے حفاظت کی جاتی ہے.کسان کی تمام تر توجہ،اپنی کهیتی پہ مبذول رہتی ہے..نقصان دہ معاملات سے آگاہ رہتا ہے..جہاں رب الخالق نے میاں بیوی کو ایک دوسرے کا لباس قرار دے کر عظیم الشان تمثیل بیان کی ہے اسی طرح بیوی کو کهیتی کی مثال دینا بهی لاجواب ہے..گویا کہ نکاح کرنا کوئی دنیاوی لذت، یا کوئی وقتی تفریح کا پروگرام نہیں بلکہ انتہائ سنجیدہ معاملہ ہے..جسے الله کے سامنے جواب دہی کے خوف کے بغیر نبهانا ممکن نہیں ہے.اسی لئے خطبہ نکاح میں پڑهی جانے والی تین آیات میں چار مرتبہ "اتقوا الله” کی تاکید پائی جاتی ہے..
جسمانی ساخت،اور دیگر صلاحیتوں کے اعتبار سے مرد اور عورت الگ الگ مکمل احسن تقویم ہیں..مگر تولیدی صلاحیت کے اعتبار سے دونوں ایک دوسرے کے بغیر ادهورے ہیں اور ایک دوسرے کے محتاج ہیں..
دونوں ایک دوسرے کا نصف جزو ہیں..
مسند احمد میں نبی اکرم ص کا قول ہے کہ "انما النساء شقاق الرجال”یعنی عورتیں مردوں کا ہی حصہ ہیں.. دونوں اصناف ایک دوسرے کا تکملہ ہیں…اور دونوں نے مل کر ایک نئے وجود کی تشکیل کا فریضہ انجام دینا ہے…اور نئے وجود کے دنیا میں لانے کے لئے شوہر اور بیوی کا وجود ناگزیر ہے تو اس کی پرورش تعلیم و تربیت میں بهی دونوں کی زمہ داری اسی طرح بهرپور ہے..فصل یا باغ کے پهل سے کماحقہ فائدہ اٹهانے کے لئے جز وقتی نہیں ہمہ وقتی محنت کی ضرورت ہوتی ہے ..
اسلامی معاشرے میں نکاح دور رس نتائج کا حامل ہے. معاشرے کی تعمیر میں پہلی اینٹ ہے . اور معاشرے کی تشکیل میں بنیادی اکائ خاندان کی مضبوطی ہے .اور خاندانی نظام میں مرد کے لئے شوہر کے بعد باپ کا کردار اہمیت رکهتا ہے..
ایک باپ اپنی اولاد کو اپنا نام عزت و وقار ،دهن دولت ساری دنیا کی بهی جمع کر کے لا دے مگر اچھی تربیت اس سب پہ حاوی ہے.
مرد اپنی بیوی اور أولاد کا راعی ہے..اور اس سے اس رعیت کے بارے میں باز پرس ہوگی. گهر والوں کی .جسمانی، زہنی،روحانی صحت، تعلیم و تربیت کا حسبِ توفیق واستطاعت اہتمام کرنا مرد کی ذمہ داری ہے. بیوی کو اچھی ماں بننے میں مدد کرنا، اس کو گائڈ کرنا، اور نگرانی رکهنا،کہ متعین اسلامی و اخلاقی اقدار سے ہٹنے تو نہیں لگی، پیار و محبت، خلوص سے مشورہ دینا، شوہر کا قوام ہونے کی وجہ سے فرض بنتا ہے. . گهر کے ماحول میں سکینت اسی طرح آتی ہے جب سربراہ سب کے حقوق کا تحفظ کرے حتی الامکان اپنے فرائض بحسن وخوبی انجام دے. اور نتیجتاً سرداروں والا مقام خودبخود حاصل کر لے ..
باپ کی طرف سے اولاد کی تربیت ہی وہ ثمر ہے جس کا فیض ڈھلتی عمر میں ملنے کی امید بندھی ہوتی ہے..باپ نے صرف اچھی اولاد نہیں پرورش کرنی ہوتی بلکہ اپنا جانشین ایک اچهے باپ،بهائ بیٹے، کی شکل میں چھوڑنا ہوتا ہے..معاشرے کے لئے کار آمد کردار، قوم و ملت کے لئے مثالی شخصیت کی آبیاری کرنا ہوتی ہے..صرف کامیاب روزگار کا مالک بنا دینا ایک مسلمان باپ کی ذمہ داری نہیں ،دنیا کے آرام و آسائش کو مہیا کر دینے میں اپنی جوانی،وقت صلاحیتیں کهپا دینا اچهے باپ بن جانے کی نشانی نہیں ہے. .آج جو دولت خرچ کرے گا تو ممکن ہے اولاد بهی آپ کے آرام و آسائش کے لئے دولت خرچ کر دے. اگر آپ نے اس کو وقت نہیں دیا تو اس کے پاس بهی وقت نہیں ہوگا اس لئے کہ آپ نے اس پہ وقت اور توجہ کی دولت انوسٹ نہیں کی..روحانی خوشی مہیا کی ہوگی تو وہی واپس لوٹ کے آئے گی..آپ نے حقیقی معنوں میں مسلمان باپ بن کر اپنے آپ کو پیش نہیں کیا تو وہ بهی حقیقی مسلمان اولاد بن کر نہیں دکھائے گی. .
کهیت اور فصل کے جس رخ پہ جس حصے پہ، جس دور میں لاپرواہی،عدم توجہی ہوگی اسی قدر نقصان سامنے آکر رہے گا .
"لوگو؛ اپنے رب سے ڈرو،جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا. اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں دنیا میں پهیلا دئے..”
اسلام میں نکاح کا مطلب دو افراد کی جزباتی جسمانی وابستگی کسی وقتی ہیجان کی تسکین کا ذریعہ نہیں بلکہ انتہائ اعلیٰ مقاصد کے حصول کا ذریعہ ہے..اور ہر دو صنف میں طبعی میلان اور کشش اس مقصد کے حصول میں کامیاب ہونے کے لئے آسانی کی صورت ہے..اور اس طبعی کشش کو حلال کرنے کی صورت باہم نکاح کرنا ہے..اور اسی رشتے کے نتیجے میں وہ امن سکوں، تحفظ، ایثار، ضبط و تحمل کا سازگار ماحول ملتا ہے جس میں آنے والی نسل کی پیدائش،پرورش تعلیم و تربیت رب کی رضا کے مطابق کرنا آسان ہو جاتی ہے اور یہی وہ مقصد وحید ہے جس کے لئے مرد و عورت کا جوڑا بنایا..
سیدنا آدم علیہ السلام کا شوہر کے مرتبہ کے بعد باپ کے مرتبہ پہ فائز ہوئے…الله تعالى نے شوہر کے لئے بیوی کو کهیتی سے تشبیہ دی ہے..کهیت میں بیج بونے سے پہلے زمین فصل کے لیے تیار کی جاتی ہے..پهر اس کی ہر طرح سے حفاظت کی جاتی ہے.کسان کی تمام تر توجہ،اپنی کهیتی پہ مبذول رہتی ہے..نقصان دہ معاملات سے آگاہ رہتا ہے..جہاں رب الخالق نے میاں بیوی کو ایک دوسرے کا لباس قرار دے کر عظیم الشان تمثیل بیان کی ہے اسی طرح بیوی کو کهیتی کی مثال دینا بهی لاجواب ہے..گویا کہ نکاح کرنا کوئی دنیاوی لذت، یا کوئی وقتی تفریح کا پروگرام نہیں بلکہ انتہائ سنجیدہ معاملہ ہے..جسے الله کے سامنے جواب دہی کے خوف کے بغیر نبهانا ممکن نہیں ہے.اسی لئے خطبہ نکاح میں پڑهی جانے والی تین آیات میں چار مرتبہ "اتقوا الله” کی تاکید پائی جاتی ہے..
جسمانی ساخت،اور دیگر صلاحیتوں کے اعتبار سے مرد اور عورت الگ الگ مکمل احسن تقویم ہیں..مگر تولیدی صلاحیت کے اعتبار سے دونوں ایک دوسرے کے بغیر ادهورے ہیں اور ایک دوسرے کے محتاج ہیں..
دونوں ایک دوسرے کا نصف جزو ہیں..
مسند احمد میں نبی اکرم ص کا قول ہے کہ "انما النساء شقاق الرجال”یعنی عورتیں مردوں کا ہی حصہ ہیں.. دونوں اصناف ایک دوسرے کا تکملہ ہیں…اور دونوں نے مل کر ایک نئے وجود کی تشکیل کا فریضہ انجام دینا ہے…اور نئے وجود کے دنیا میں لانے کے لئے شوہر اور بیوی کا وجود ناگزیر ہے تو اس کی پرورش تعلیم و تربیت میں بهی دونوں کی زمہ داری اسی طرح بهرپور ہے..فصل یا باغ کے پهل سے کماحقہ فائدہ اٹهانے کے لئے جز وقتی نہیں ہمہ وقتی محنت کی ضرورت ہوتی ہے ..
اسلامی معاشرے میں نکاح دور رس نتائج کا حامل ہے. معاشرے کی تعمیر میں پہلی اینٹ ہے . اور معاشرے کی تشکیل میں بنیادی اکائ خاندان کی مضبوطی ہے .اور خاندانی نظام میں مرد کے لئے شوہر کے بعد باپ کا کردار اہمیت رکهتا ہے..
ایک باپ اپنی اولاد کو اپنا نام عزت و وقار ،دهن دولت ساری دنیا کی بهی جمع کر کے لا دے مگر اچھی تربیت اس سب پہ حاوی ہے.
مرد اپنی بیوی اور أولاد کا راعی ہے..اور اس سے اس رعیت کے بارے میں باز پرس ہوگی. گهر والوں کی .جسمانی، زہنی،روحانی صحت، تعلیم و تربیت کا حسبِ توفیق واستطاعت اہتمام کرنا مرد کی ذمہ داری ہے. بیوی کو اچھی ماں بننے میں مدد کرنا، اس کو گائڈ کرنا، اور نگرانی رکهنا،کہ متعین اسلامی و اخلاقی اقدار سے ہٹنے تو نہیں لگی، پیار و محبت، خلوص سے مشورہ دینا، شوہر کا قوام ہونے کی وجہ سے فرض بنتا ہے. . گهر کے ماحول میں سکینت اسی طرح آتی ہے جب سربراہ سب کے حقوق کا تحفظ کرے حتی الامکان اپنے فرائض بحسن وخوبی انجام دے. اور نتیجتاً سرداروں والا مقام خودبخود حاصل کر لے ..
باپ کی طرف سے اولاد کی تربیت ہی وہ ثمر ہے جس کا فیض ڈھلتی عمر میں ملنے کی امید بندھی ہوتی ہے..باپ نے صرف اچھی اولاد نہیں پرورش کرنی ہوتی بلکہ اپنا جانشین ایک اچهے باپ،بهائ بیٹے، کی شکل میں چھوڑنا ہوتا ہے..معاشرے کے لئے کار آمد کردار، قوم و ملت کے لئے مثالی شخصیت کی آبیاری کرنا ہوتی ہے..صرف کامیاب روزگار کا مالک بنا دینا ایک مسلمان باپ کی ذمہ داری نہیں ،دنیا کے آرام و آسائش کو مہیا کر دینے میں اپنی جوانی،وقت صلاحیتیں کهپا دینا اچهے باپ بن جانے کی نشانی نہیں ہے. .آج جو دولت خرچ کرے گا تو ممکن ہے اولاد بهی آپ کے آرام و آسائش کے لئے دولت خرچ کر دے. اگر آپ نے اس کو وقت نہیں دیا تو اس کے پاس بهی وقت نہیں ہوگا اس لئے کہ آپ نے اس پہ وقت اور توجہ کی دولت انوسٹ نہیں کی..روحانی خوشی مہیا کی ہوگی تو وہی واپس لوٹ کے آئے گی..آپ نے حقیقی معنوں میں مسلمان باپ بن کر اپنے آپ کو پیش نہیں کیا تو وہ بهی حقیقی مسلمان اولاد بن کر نہیں دکھائے گی. .
کهیت اور فصل کے جس رخ پہ جس حصے پہ، جس دور میں لاپرواہی،عدم توجہی ہوگی اسی قدر نقصان سامنے آکر رہے گا .