بالغ نظری – 17

بالغ نظری

 خوبصورت ،پرسکون زندگی گزارنا  ہر فرد کا خواب ہوتا ہے۔ ہرانسان کی تمنا ہوتی ہے کہ اسے عزت اورمحبت ملے ، اس کی عزت نفس کی پاسداری کا خیال رکھا جائے،

جب اس خواہش اور تمنا  کو اپنی ذات تک محدود کر لیا جاتا ہے  یعنی لینے کی حس جاگتی رہتی ہے اور دینے پہ نفس کی تنگی غالب آجاتی ہے تو حقوق وفرائض کا توازن بگڑ جاتا ہے۔یا پھر رشتوں کے درمیان  حقوق وفرائض  کی تقسیم عدم توازن کا شکار ہوجاتی ہے اور فساد برپا ہوتا ہے۔جب کوئی مرد شادی کرتا ہے تو نئے رشتے بنتے ہیں۔ اس کا پہلا امتحان  رشتوں کے درمیان جزباتی ،معاشی طور پہ توازن برقرار رکھنا ہوتا ہے اور یہی اس کی بالغ نظری کا امتحان بھی ہوتا ہے،حالات و واقعات ہر انسان کے اندر جذباتی و نفسیاتی تبدیلیاں لاتے ہیں،ان تبدیلیوں کے نتائج سےگھر، خاندان  ، کے باہم معاملات و تعلقات  کا توازن بگڑنے کا اندیشہ ہو تو  اسی فرد کو بصیرت  سے کام لینا ہوگا جس کی  وجہ  سے عدم توازن کا خطرہ ہے۔  مرد کی اسی کج فہمی سے معاملات خراب ہوتے ہیں کہ جب  وہ  خواتین  کے ساتھ رشتوں کی   روح سے نابلد ہوتا ہے، اور وہ  ماں بہنوں کی سنتا ہے تو وہ درست لگتی ہیں اور جب بیوی کی سنتا ہے تو وہ مظلوم لگتی ہے۔ وہ یا تو فرار کا راستہ اختیار کرتا ہے اور دونوں کی سن کر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کرتا نہ دونوں کے درمیان پیغام رسانی کا ذریعہ بنتا ہے اس صورت میں وہ دونوں کی نظروں میں معتوب ہو جاتا ہے دوسرا  رویہ یہ ہوتا ہے کہ جس کی سنتا ہے اس کو حق سمجھتا ہے تاکہ وہ خوش ہوجائے یا پھر جس کی سنتا ہے اس کے سامنے فریق ثانی کی صفائی پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ ان سب طریقوں سے معاملات  سدھرتے نظر نہیں آتے تو  نابالغ نظر مرد کے پاس ایک ہی راستہ ہے وہ ہے گھر سے فرار۔۔

انسانی رشتوں میں اونچ نیچ فطری امر ہے ،گھروں میں سگے بہن بھائی بھی   اس کا شکار ہوجاتے ہیں قانونی رشتے  میں اس کے امکانات زیادہ ہیں، نزاع میں آسان اور سادہ ساطریقہ یہ ہے کہ جوں ہی کوئی فریق شکایت کرے ، اسے کہا جائے کہ جس سےشکایت ہے اس کے سامنے کہو جو کہنا ہے، اس سے غیبت ،چغلی، الزام تراشی ،بہتان جھوٹ کا سد باب ہوگا اور مرد  کی کشاکش میں کمی ہوگی۔ معاملات اسی صورت میں سنگین ہوتے ہیں جب پیٹھ پیچھے اپنی مظلومیت کا رونا رویا جاتا ہے اوراپنی بات کو سچ ثابت کرنے کے لئے جھوٹ کا سہارا لیا جاتا ہے اور باتوں کو سیاق وسباق سے ہٹاکر پہنچایا جاتا ہے۔ اور ان کی تصدیق  آمنے سامنے بٹھا کر بر وقت نہیں کی جاتی۔

جو مرد  اپنے گھر کے افراد خصوصابیوی اور بہنوں ،ماں کے جذبات کو  سمجھتا اور ان دونوں کو ان کا مقام برقرار رکھنے اور حق دینے کی عملی یقین دہانی کرانے میں کامیاب ہوجاتا ہے بالغ نظر کہلانے کا حقدار ہے۔ وہ مرد جو دلہن سے پہلی ملاقات میں ہی اپنےگھر والوں کو خوش رکھنے کی شرط پہ  اس سے راضی رہنے کی بات کرتا ہے یا پھر بیوی کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اپنے گھر والوں کو یکسر نظر انداز کرنے کا تاثر دیتا ہے  اپنے مستقبل کے معاملات خراب کر لیتا ہے   کیونکہ اس سے دلوں میں بد گمانی و بے اعتمادی  پیدا ہوتی ہے ۔ہم یہ جانتے ہیں کہ ہر  قسم  کے بدلتے حالات میں اپنے جذبات ،خیالات،معاملات میں توازن رکھنا اور ترجیحات کا تعین کرنا  پرسکون زندگی کی ضمانت ہے۔ لڑکی کے جذبات کو سامنے رکھنا افضل ہے کہ وہ اپنے بہت سے رشتے چھوڑ کر اس ایک فرد کے ساتھ جوڑی گئی ہے، جو اس کی چادر بھی ہے چار دیواری بھی ۔ جب ایک پودے کی پیوندکاری کی جاتی ہے تو نئی زمین میں  جاکر وہ ایک بار تو مرجھایا  ہوا لگتاہے ۔پھر اگر اس کی حسب حال دیکھ بھال  کی جائےتو وہ نشونما  پاتا ہے،جس قدر توجہ سے اس کو نئی زمین میں نشونما کے مواقع فراہم ہوں گے وہ  بہتر نتائج سامنے لائے گا گھر میں آنے والی لڑکی بھی  بالکل اسی طرح   نئے گھر میں مربوط ہوتی ہے۔۔ اس کو  محرم اور غیر محرم رشتوں کی دھوپ چھاؤں کا فہم دینا ، اور اس کے ساتھ ان رشتوں کو شرعی طریقے پہ نبھانےمیں تعاون کرنا،شوہر کی اسی طرح ذمہ داری ہے جیسے نان نفقہ کی ہے۔ بیوی کی ذاتی زندگی کے جذبات و احساسات مثلا اس کی آزادانہ نشست وبرخواست، اس کےخواب گاہ کی پرائیویسی ، سامان کی اپنی ملکیت ،رشتہ داروں کے  آنےاور ان کی  خاطر تواضع پہ فراخ دلی، شوہر کا  فرض ہے ۔مشترکہ خاندانی نظام  کی صورت میں بھی  بیوی کو ایسا یونٹ مہیا ہونا چاہیے جہاں وہ   جگہ  اور وقت کی اپنی ملکیت کے احساس کے ساتھ زندگی گزار سکے ۔

حسن نیت کے ساتھ تقویٰ کا رویّہ اختیار کرتے ہوئے  اللہ ربّ العزت سے استعانت کی ہر دم دعا کرنے سے معاملات میں کجی کے امکانات کم ہوتے ہیں۔ ماں کا درجہ جو ہے اس میں کمی نہ ہو اور ماں کو یقین آجائے کہ بیٹا مجھے وہی مقام دیتا ہے جو اس کا ہے تو ماں جو قربانی وایثار کا  استعارہ ہے خود اس کی خوشی کو ترجیح دے گی، بیوی کو یہ یقین دہانی ہو جائے کہ جو محبت اس کا حق ہے وہ اسی کو مل رہی ہے تو بیوی سے بڑھ کر مرد کے لئے کوئی باعث سکون نہیں ہو سکتا ۔ مسئلہ اسی وقت بنتا ہے جب رشتوں کے مقام اپنی جگہ سے اور حدود سے تجاوز کر جاتے ہیں۔اور ترجیحات کا تعین نہیں ہو پاتا۔

ہر انسان کو اپنی ذات اور اس سے وابستہ رشتے عزیز ہوتے ہیں اور جب ان رشتوں میں جدائی ہوجائے تو  وہ اور بھی پیارے ہو جاتے ہیں ۔مرد کو اپنے رشتوں سے دوری کا سامنا نہیں کرنا پڑتا مگر وہ لڑکی جو نازک جذبات رکھتی ہے اپنے پیارے رشتے چھوڑ کر آئی ہے اس کی دل جوئی اور اس کے رشتوں کا احترام کرنا اور اپنے گھر والوں سے کرانا  شوہر پہ واجب ہے۔ نئی دلہن کو اپنے گھر والوں کے مزاج ،عادات ،باہم کم یا زیادہ اچھے باہمی تعلقات  کے بارے میں پہچان کروادینا ضروری ہے۔  اور بیوی سے یہ توقع رکھنا کہ وہ سارے  گھر والوں کے مزاج خود سے چند دن میں جان  کرسب کو خوش رکھے ،  زیادتی ہے،،شوہر کو اس بات کا ادراک  ہونا چاہیے کہ ہر لڑکی کے لئے اب اس کا شوہر ہی ہر رشتے کا نعم البدل ہے۔ ہر لڑکی کو ساری عمر  باپ کی شفقت اور بھائی جیسی مہربان ہستی کی ضرورت رہتی ہے  اور وہ اپنے شوہر کو اپنے لئے پوری دنیا کے برابر سمجھتی ہے۔ جو مرد اپنی بیوی کا مان رکھنے میں کامیاب ہوتے ہیں وہی دراصل سر کا تاج  کہلانے کے حقدار ہوتے ہیں۔ اور یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ سجدہ تعظیمی ایک مومن  شوہر کو جائیز ہوتا،  اللہ  کی نافرمانی پہ بیوی کو اکسانے والےشوہرکو  نہیں ،اس لیے کہ اللہ کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت نہیں ہو سکتی۔[لاطاعۃ لمخلوق فی معصیت الخالق] اللہ کی مقرر کردہ حدود سے تجاوز کرنا فاسقوں کا کام ہے۔۔

جو مرد  شوہر ہونے کے زعم میں  بیوی کومجبور کرتے ہیں کہ ان کی خواہشات نفس  کے مطابق زندگی گزارے اور بیوی کی معاشرتی مجبوریاں ان کو  خالق کی معصیت میں شوہر کی اطاعت پہ  آمادہ کرتی ہیں تو مرد ہی جواب دہ زیادہ ہوں گے۔اس لئے  کہ اس رب نے قوام کا درجہ اپنی اطاعت کروانے کے لئے دیا ہے نہ کہ نافرمانی کرانے کے لئے۔۔  دنیا میں اللہ تعالی کی مکمل اطاعت کرنے اور کروانے کے لئے ،بالغ نظری  سے معاملات کو دیکھنے اور ان سے نبرد آزما ہونے کے لیے اپنے نفس کی تربیت  کرنا پڑتی ہے۔ اس کی تربیت کے لئے صابرانہ رویہ بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔صبر وہ صفت ہے جس سے انسان تقوی کے اس مقام کو پا لیتا ہے،جہاں خالق اور مخلوق دونوں کی نظروں میں  بلندمقام ومرتبہ حاصل ہوتا ہے۔ معاملہ  اپنے نفس کے سلجھاؤ کا ہو یا اپنے ارد گرد کے متعلقین کے مابین معاملات کے سلجھاؤ کا صبر کی صفت ہی کامیاب کراتی ہے کہ یہ پیغمبرانہ صفت ہے۔ قرآن پاک میں  بار بار اس کی تلقین کی گئی ہے۔ اور کسی بھی انسان کے کردار کی مثبت تعریف کرنا ہو تو اس کے  صابرانہ طرز عمل  کو ہی پیش نظر رکھا جاتا ہے ،اور صبر کی حقیقت یہی ہے کہ معاملہ چھوٹا ہو یا بڑا   جذبات، خواہشات  اور زبان کو قابو میں رکھنا،جلد بازی،گھبرا ہٹ، ہراس،طمع اور نامناسب جوش سے بچنا۔ جچی تلی حکمت والی قوت فیصلہ برقرار رکھنا۔ اشتعال انگیز حالات میں غیظ وغضب  کا ہیجان اپنے اوپر غالب نہ آنے دینا،نیم پختہ تدبیر سے معاملات کو چلانے کی کوشش نہ کرنا۔مشورہ کرنے کے لئے غیرجانبدار خیر خواہ سے مشورہ کرنا۔ اپنی غلطی کو تسلیم کرنا اور اصلاح کا ارادہ کرنا۔ دوسروں کی غلطیوں سے در گزر کرنے کے لئے اپنی انا  کو مارنے کے لئے نفس پہ جبر کرنا ہے،

ان صابرانہ طرز عمل کو زندگی میں راسخ کرنے کے لیئے مسلسل ساری عمر جدوجہد کرنا ہوگی ، صبر وہ صفت ہے جس کی تربیت  زندگی کے آخری سانس تک کرنے کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ یہ نفس کے ساتھ مجاہدہ ہے،  اور وفا کے تقاضے رب سے نبھانے ہوں یا بندوں سے  نفس سے  چومکھی لڑائی لڑنا پڑتی ہے۔ اور فرمایا رب العالمین نے  قد افلح من زکھا وقد خاب من دسھا ۔[۔الشمس]  [جاری ہے]

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s