نکاح کی اہمیت – 16

"نکاح کی اہمیت”

الله رب العزت نے کائنات میں ہر شےاور ہر جاندار کا جوڑا بنایا ہے،انسانی جوڑے کو نکاح کا بندھن دوسری مخلوقات سے ممتاز کرتا ہے اور یہ شرف انسانی کا منہ بولتا ثبوت ہے. ابتدائے آفرینش سے ہر دور اور ہر قوم و مزہب میں گهر گرہستی کی بنیاد  کے لئےنکاح ہی باوقار طریقہ کار رہا ہے. اور ہر دور میں مرد اور عورت کے آزادانہ میل جول کو جرم قرار دیا گیا ہے کیونکہ یہ قانون فطرت سے بغاوت ہے.
الله سبحانه وتعالى نے مرد اور عورت کی تخلیق اس طرح کی ہے کہ وہ دونوں ایک دوسرے  کی تکمیل کا ذریعہ ہیں.ایک دوسرے کے بغیر دونوں نامکمل ہیں.دونوں اپنی جسمانی ساخت میں الگ ہونے کے باوجود ایک دوسرے کے لئے نا گزیر ہیں.ہر تہذیب میں مرد اور عورت کو  نکاح کے بندھن میں باندھنے کا مقصد نسل انسانی کی بقا ہے. اسلام اپنے پیروکاروں کو الله کی اطاعت گزار نسل کی بقا کا فریضہ سونپتا ہے..اسی لئے اولاد کے حصول کی دعا کرنا انبیاء کی سنت رہی ہے
خاتم النبیین محمد صل اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے کہ "نکاح کرنا میری سنت ہے جو میری سنت سے اعراض کرے وہ ہم میں سے نہیں”
نکاح کے معنی ہیں دو چیزوں کا آپس میں اس طرح ملنا کہ وہ ایک ہی لگنے لگے..مثال کے لئے یہ بات کہی جا سکتی ہے.جیسے دودھ میں میٹھا ملا دینا اسی سے محاورہ بنا کہ شیر وشکر ہوجانا.دو الگ کپڑوں کو یا رسی کو مضبوطی سے گرہ لگا کر ایک  بنا  دینا(طلاق کے معنی ہیں دو باہم ملی ہوئ چیزوں کو الگ الگ کرنا یا گرہ کھول دینا) .غرضیکہ ایک بڑے مقصد کے حصول کی خاطر ایک ہوکر ذمہ داری نبهانے کا وعدہ کرنا نکاح ہے.
نکاح  بنیادی طورپہ مرد اور عورت کے درمیان  معاہدہ ہے،دو خاندان اور دو برادریاں بهی اس سے متاثر ہوتی ہیں.اور یہ الله سبحانه وتعالى سے بهی عهد ہے کہ رب العلمین کے نام پہ جوڑا گیا رشتہ ہے.
یہ اس رب کریم کی اپنے بندوں پہ خاص مہربانی اور شفقت و محبت ہے کہ اس نے بقائے نسل  کی گراں بار ذمہ داری کے ساتھ  ساتھ  جسمانی،  نفسیاتی و جنسی  تسکین و انبساط کا داعیہ بهی ایک دوسرے کے وجود میں رکھ دیا ہے. اور یہ بهی الله رب العالمين کی خاص نشانی ہے کہ نکاح کے ایجاب و قبول   کے دو بول عموماً  دو اجنبیوں کے درمیان خاص تعلق و انس پیدا کر دیتے ہیں . یہ تعلق بن جانا بهی یہ ظاہر کرتا ہے کہ خالق نے کسی خاص مقصد کے لئے دونوں کے درمیان اتنی آسانی سے انسیت پیدا کر دی ہے..  ہر فرد کے لئے غور کا مقام یہ ہے کہ وہم اور ذمہ داری کا حق ادا کرتا ہے یا صرف خواہشاتِ نفس کی تسکین حاصل کرنا ہی ترجیح بن جاتا ہے.  جو اپنے حقیقی مقصد نکاح(حصول أولاد اور اس کی تربیت) کو چھوڑ کر خواہشاتِ نفس کو ترجیح دے گا وہ کبھی خوش و مطمئن نہیں رہ سکتا. اور نہ ہی وہ نکاح کی صورت میں کئے گئے عهد کا پاس وفا رکه سکتا ہے.
نکاح کا پیغام کسی گهر میں جس بهی جائز اور مروجہ احسن  طریقے سے  دیا جائے اس کی بنیاد میں سچائ،  ایمان داری کے ساته عهد کی پابندی کا احساس  ہونا لازمی ہے. مسنون طریقے سے تقوی کا معیار سامنے رکھتے ہوئے زندگی کے اس نئے میدان میں قدم رکھنے والے اپنی حقیقی جنت کی تیاری کا عزم کریں گے تو دنیا بهی جنت کا عکس پیش کرے گی..
زندگی کے اس نئے رشتے میں جزباتی ترنگ  ہے تو بہت سے پرانے رشتوں کے خوبصورت  رنگ کو قائم رکھنے کے لیے ہوش و حواس سے کام لینے کی بهی ضرورت ہوتی ہے. مرد اپنے گهر کے سب اہل خانہ خصوصاً  خواتین   کے جزبات کو پیش نظر رکهتے ہوئے اپنا کردار نبها کر ہی اپنی ازدواجی زندگی میں سکون لا سکتا ہے. ہر رشتہ اہم ہے اور ہر رشتے کا ایک مقام ہے اگر سب کو تقویٰ کے ساتھ نبهایا جائے تو الله کی مدد شامل حال رہتی ہے.ازدواجی زندگی کے سکون کی کڑیاں صرف نکاح کے بعد شروع نہیں ہو تیں بلکہ اس کی پہلی کڑی اس وقت شروع ہوتی ہے جب دولها  نے  اپنے گهر میں اپنی آنکھوں سے والدین کے آپس میں اور دیگر تعلقات کو نبهاتے دیکھنا شروع کیا تها…سؤال یہ ہے کہ جو کچھ آنکھیں دیکھ چکی ہیں اس کے علی الرغم اب کیا کریں.ازدواجی زندگی کے میدان میں اترنے سے پہلے  قلب سلیم کے ساتھ بہتری کی دعا کریں اور دوا کے طورپہ أن گزارشات پہ توجہ کی جائے..
رشتہ "کفو”اورتقوی کی بنیاد پہ تلاش کیا جائے.
لالچ، حرص طمع کی بنیاد پہ یا زبردستی  قائم کیا گیا رشتہ نکاح کے تقاضوں سے انحراف ہے. رشتہ طے کرنے کا حتمی فیصلہ کرنے سے پہلے لڑکے اور لڑکی  کے درمیان شرعی حدود میں رہتے  ہوئے ایسا رابطہ ہونا چاہئے
کہ زہنی ہم آہنگی کے پیمانے کا اندازہ ہوسکے.
مرد کو صحیح علم ہونا چاہئےکہ دین حنیف میں شوہر کا مرتبہ کیا ہے،بیوی کے حقوق کیا ہیں؟ اوردونوں کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ اس حقیقت کا شعور بیدار کیا جائے کہ مردانگی کی دراصل شان کیا ہوتی ہے؟
اپنے نفس کی اچهایئوں اور برائیوں کا ادراک کیا جائے. اچهایئوں میں اضافہ اور برائیوں میں کمی کے لئے” اپنی تربیت آپ "کا طریق کار وضع کیا جائے.
نیک لوگوں کی صحبت اختیار کی جائے. اپنے کردار کو بے داغ رکهنے کے لئے آوارہ منش دوستوں محفلوں  جس میں انٹرنیٹ بهی شامل ہے  سے بچنا اہم ترین بات ہے.
اپنے اردگرد ،اور خاندان میں کامیاب و ناکام  جوڑوں کی زندگی سے سبق حاصل کیا جائے.
یہ یاد رکهنا چاہئے کہ ازدواجی زندگی ہمہ وقت پهولوں کی سیج نہیں ہوگی..دنیا ایک امتحان گاہ ہے عمر کا ہر دور نئے تقاضے رکهتا ہے.  نئے جزباتی رشتے زندگی میں حسن لاتے ہیں تو ان کی وجہ سے نئے مسائل کا  سامنا بهی کرنا پڑتا ہے. اس وقت بالغ نظری کا  امتحان ہوتا ہے..شادی کی عمر کو پہنچ جانا بلوغت کی نشانی تو  ہوسکتا ہے لیکن شادی کر لینا بالغ نظر ہونے کی دلیل ہر گز نہیں ہے..اور جو زندگی کے نشیب و فراز میں بالغ نظری سے کام نہ لے سکتا ہو اس کی  جواں مردی و مردانگی اور عقل سلیم کی کیا سند پیش کی جا سکتی ہے.؟

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s