"مثالی شوہر”
دنیا جیسے جیسے ارتقائی مراحل طے کر رہی ہے ہر کام ،ہر چیز میں تخصص یا سپیشلائزیشن چاہتی ہے.انسانی بدن کے ہر عضو کا یا کسی اور فن میں ماہر ہونا سپیشلسٹ کہلاتا ہے اور پھر ہر عضو کے مزید مرحلہ وار علم ہیں .اسی طرح زندگی کا ہر کام ابتدا سے انجام تک تخصص کا مرہون منت ہے. اور کسی بھی شعبے میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنا یا انسانی بدن کا ماہر معالج بننا ایک قابل قدر بات ہے مگر بحیثیت انسان کے مرحلہ وار تعلق داری میں ماہر ہونا کمال درجہ کی قابل فخر بات ہے. کسی بهی کام میں ماہر ہونے کے لئے ایک ایسے نمونے یا ماڈل کی ضرورت ہوتی ہے جس کو سامنے رکھ کر مطلوبہ معیار تک پہنچا جا سکے اور اس کا تخصص کسی اعلیٰ درجے کی درسگاہ سے حاصل شدہ ہو اور اس کے علم، کام،پروجیکٹ یا مقالے کی نگرانی کسی بلند پایہ ہستی نے کی ہو.
ہم یہ جانتے ہیں کہ معاشرے کی بنیادی اکائ گھر ہے.اور گهر کا سربراہ مرد ہے اور مرد بحیثیت شوہر کے گهر کا پہلا ذمہ دار ہے وہ راعی ہے جس سے اس کی رعیت کے بارے میں باز پرس کی جائے گی..
نمونے کا شوہر بننا ہی گهر اور معاشرے کی سدھار کا پہلا مرحلہ ہے..ہم وہ خوش قسمت امت ہیں جس کو ایک کامل نمونہ، زندگی گزارنے کے لئے عطا کیا گیا ہے.”لقد کان لکم فی رسول الله اسوه حسنه. .”
ایک مرد کو اپنی زندگی میں معاشی، معاشرتی حالات کے مطابق شریک زندگی کا انتخاب کرنا ہوتا ہے.. دو جمع دو چار کا فارمولہ اس رشتے کی کامیابی کے لئے لاگو نہیں ہوتا..ضروری نہیں کہ یہ اپنا انتخاب ہو بعض اوقات محض حالات کی مجبوری کی بناء پہ مناکحت ہو جاتی ہے. سمجھوتہ ہی کامیابی کے لئے کارگر نسخہ ہے.. بہر حال ہر مرد جب شوہر بنتا ہے تو اس کو ایک قابل تقلید شخصیت کی ضرورت ہوتی ہے..الله تعالیٰ نے مومنوں کے لئے اسوہ کامل اتارا خود ان کو تعلیم دی "انک لعلی خلق عظیم” کی سند عطا کی …اور ہم جانتے ہیں کہ نبی صل اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں جو عورتیں بحیثیت بیوی کے آئیں وہ مختلف علاقوں سے مختلف حالات و واقعات سے تعلق رکھتی تهیں.اگر سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنها عمر میں بڑی ہیں تو سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنها چهوٹی ہیں..کوئی ہم عمر ہے، کوئی بیوہ ہے یا مطلقہ ہے، حسین ترین ہے تو معمولی شکل کی بهی ہے، دراز قد ہے تو چهوٹے قد کی بهی ہے اگر کوئی معمولی گهرانے سے تعلق رکھتی ہے تو کوئی سردار کی بیٹی بهی ہے کوئی صحتمند ہے تو کوئی کمزور صحت کی مالک ہے..اگر کوئی مزاج میں تیزی رکهتی ہے تو کسی کا بهولپن اس کی خوبی ہے ،کوئی کهانا پکانے میں ماہر ہے تو کوئ علم میں تخصص کا درجہ رکھتی ہے..کسی سے اولاد ہوئ اور کسی سے نہیں ہوئ اور کوئ بیوہ ہے اگر مطلقہ ہے تو اپنے بچے بهی ساتھ لے کر آئ. غرض بحیثیت شوہر کے نبی کریم (زندگی کے باقی ہر معاملے کے ساتھ ساتھ) مومن مردوں کے لئے کامل ترین نمونہ ہے ..جس عورت سے بهی مرد نکاح کرے گا وہ امہات المومنین میں سے کسی ایک کے ساتھ حالات میں یا معاملات میں مشابہت رکھنے والی ہوسکتی ہے..دنیا کی ہر عورت بحیثیت بیوی کے ایک جیسے جزبات رکھتی ہے. ہر انسانی فرقہ "تشابهت قلوبهم” پہ پورا اترتا ہوتا ہے..سیرت النبی صل اللہ علیہ و سلم ہمیں بتاتی ہے کہ ان سے ہر بیوی خوش تهی، نبی کریم کا یہ فرمان کہ سب سے بہتر مومن (اعلیٰ گریڈ حاصل کرنے والا) وہ ہے جو اپنے اہل و عیال کے لئے بہتر ہے اور اگر کسی نے یہ اعلیٰ گریڈ پانا ہو تو اس کے لئے ضروری ہے وہ نبی کریم کا اسوہ پہ عمل کرے کہ وہ اپنے اہل و عیال کے لیے سب سے بہتر ہیں..
عموما بیوی مادی اشیاء سے زیادہ اپنے نازک جزبات و احساسات کا خیال رکھنے والا شوہر ہی چاہتی ہے اور ایسا شوہر ہی اس کا محبوب بن سکتا ہے . آپ تصور کیجیے ام المومنین نے اپنے لئے رسول اللہ کے زبان مبارک سے”.آبگینہ "کا لفظ سن کر کیسے دل میں محبت کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر محسوس کیا ہوگا. سبحان اللہ! اور یہی پیغام ہر مومن شوہر کے لئے ہے کہ نبی کریم نے بیوی کو "آبگینہ” سے تشبیہ دی تو آپ بهی اس لفظ کی سچائ، اس میں چهپی نزاکت اور خوبصورتی کو محسوس کریں. اسی طرح جیسے نبی اکرم نے محسوس کیا اور اظہار کیا.. یہ لفظ ہی ہوتے ہیں جو دل کی نگری کو برباد کرتے ہیں یا آباد کرتے ہیں ان سے ہی دل شاد ہوتے ہیں یا ناشاد ہوتے ہیں. جو مرد اپنی بیوی کے دل کو فتح نہ کر سکا وہ ساری دنیا بهی فتح کرلے تو ناکام ہے.
وہ جو شادی شدہ ہیں اپنی بیوی کے ساتھ کم یا زیادہ مدت گزار چکے ہیں اور وہ نوجوان مسلم جو شریک زندگی کے خواب دیکھ رہے ہیں نبی کریم صل اللہ علیہ و سلم کے ازواج مطهرات کے ساتھ نرمی کا برتاؤ ،لفظوں کا چناؤ، اور نازک احساسات و جزبات کے احترام کو بصیرت کی نگاہ سے دیکھیں، دل کی دهڑکن میں اس ارتعاش کو محسوس کریں جو اسوہ رسول صل اللہ علیہ و سلم کی محبت میں محسوس ہوتا ہے ،دل میں اسوہ رسول سے تعلق کا ارتعاش پیدا ہو تو مومن جان لیتا ہے کہ
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بهی جهنم بهی @
اگر پر سکون خوشگوار ازدواجی زندگی گزارنے کی تمنا ہے تو اپنے دل میں اس” آبگینے "کو محفوظ کرنا ہوگا نظروں میں احترام اور زبان پہ مٹھاس لانی ہوگی، عورت کی فطرت میں ڈهل جانے کی صلاحیت عطیہ الہی ہے. اس فطرت کو رب کی رضا کے مطابق کیسے ڈهالنا ہے یہ” قوام”کی صلاحیت کا امتحان ہے. اور اس امتحان میں پورا اترنے کے لئے
مکمل بهر پور تیاری کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتا.
*****************************
تحریر ڈاکٹر بشری تسنیم