شریک زندگی کا انتخاب – ۳
شریک زندگی کا انتخاب پوری یکسوئی، اطمینان قلب اور نیک نیتی سے کرنے کے لئے "توکل علی الله” ہونا کامیابی کی ضمانت ہے..جب طریقہ انتخاب مسنون ہوگا اور ترتیب انتخاب بهی مسنون رہے گی تو پهر” کیا الله سبحانہ و تعالیٰ اپنےبندے کے لئے کافی نہیں؟ ” اور الله سبحانه وتعالى أن کے لئے کافی ہوگا جو اپنے أسباب و وسائل کی فراوانی کے باوجود الله تعالى پہ توکل کریں گے. یا قلیل دنیا ملنے پہ بهی بهروسہ رب العلمین پہ ہی کریں گے..
شریکِ زندگی ایک دوسرے کے لئے کیسے ساتهی ثابت ہوں گے اس کا اندازہ ہی لگایا جا سکتا ہے جب تک زندگی کے میدان میں اترا نہیں جاتا اپنے اخلاق و کردار کی ضمانت دینا مشکل ہے. جب انسان زندگی کے مسائل سے تنها نبرد آزما ہوتا ہے تو اپنی صوابدید پہ فیصلے کرتا ہے ،لیکن جب اس زندگی کے ہر لمحہ میں دوسرا فرد شریک ہوتا ہے تو افکار وأعمال مشترک ہوجاتے ہیں. .زاویہ نظر دو ، زہن بهی دو ہوتے ہیں اور مزاج بهی مختلف ہوتے ہیں ،جزباتی کیفیات بهی ہر معاملے میں ایک جیسی نہیں ہوسکتی. اس لئے کہ ہردو صنف کی جسمانی اور زہنی ساخت کے تقاضے مختلف ہوتے ہیں. پهر مورثی اثرات، تعلیم و تربیت، معاشی و معاشرتی و تہزیبی ماحول کی وجہ سے زہنی مطابقت میں بعد ہو سکتا ہے. "کفو” کے تقاضے پورے ہونے کے باوجود میاں بیوی ایسے ہی ہوتے ہیں جیسے دو الگ سیاروں کی مخلوق ہوں.
عشق و محبت کے دعوےدار ہوں، یا زہنی مطابقت کا یکساں معیار تلاش کر لینے والے، انکے دعوے اور معیار کی آزمائش نکاح کے بعد ہی ہوتی ہے..
عموماً مثال دی جاتی ہے کہ میاں بیوی گاڑی کے دو پہئیے ہوتے ہیں واقعتاً زندگی کی گاڑی ایک پہئیے پہ نہیں چل سکتی. .مگر حقیقت یہ بهی ہے کہ کسی بهی گاڑی کو استعمال کرنے کے لئے دو پہیئے مناسب جگہ پہ لگانے کی شرط ہے. اگر سائکل ہے تو دو پہیئے آگے پیچھے ہیں،اگر گاڑی ہے تو دو پہئے مناسب فاصلے پہ ہیں مگر دونوں کو ایک ہی وقت میں ایکساته چلنا ہے. یعنی زندگی کی ایک یی سڑک پہ دونوں نے اپنے مقام پہ رہ کے ایک ساته ہی چلنا ہے.
الله تعالى نے قرآن پاک میں کسی رشتے کو اپنی نشانی قرار نہیں دیا سوائے میاں بیوی کے. دو اجنبی مخالف صنف کے افراد کو چار گواہوں کی موجودگی میں ایجاب و قبول کے ساته ہی ایک ایسے رشتے میں بانده دیا جاتا ہےجس سے ہر شے مشترکہ ہوگئ..جسم و جان بهی مال و دولت بهی اور عزت و آبرو بهی. سبحان الله کہ وہ نکاح کے دو بول جس سے بڑه کر کوئ اور بول محبت کے لئے اکسیر نہ پائے گئے. .(حدیث کا حوالہ)
قرآن پاک میں میاں بیوی کو ایک دوسرے کا لباس کہا گیا ہے (آیت کا حوالہ دیا جائے)اس سے زیادہ جامع مثال ممکن ہی نہ تهی. .لباس کی جو خوبیاں اور جو فوائد اور تقاضے ہوتے ہیں وہ سب میاں بیوی کے رشتے سے منسلک ہیں. ایک دوسرے کی زینت ہے،پردہ پوشی ہے، اس زندگی کے سردو گرم سے حفاظت کا ذریعہ بهی ہیں. .
نکاح کے بعد مرد اور عورت میاں بیوی ایک دوسرے کا لباس بن جاتے ہیں. گویا کہ وہ ایک سادہ ان سلا کپڑا تها اب دونوں نے خود کو ایک دوسرے کے مزاج،پسند ناپسند، عادات کے مطابق ڈهالنا ہے.جیسے سادہ کپڑے کو انسان کے قد کاٹھ جسم کی مناسبت سے ہی قطع و برید کرکے سیا جاتا ہے..بے ڈهنگا لباس؛ جو جسم سے مناسبت نہ رکهتا ہو شخصیت میں کشش نہیں رہنے دیتا اسی طرح میاں بیوی کو ایک دوسرے کے جزبات، خواہشات، عادات و اطوار کے مطابق قطع و برید کرنا پڑے گی.ایک دوسرے کی فطری انسانی کمزوریوں کے خلا کو اپنی خداداد صلاحیتوں سے پر کرنا ہوگا.
جو درجہ بندی الله تعالى نے شوہر اور بیوی میں رکهی ہے اس کی حقیقت کو جان لینا چاہیے. الله تعالى نے دنیا کا نظام أحسن طریقے سے جاری رکهنے کے لئے کائنات کی ہر شے کا مقام متعین کر دیا ہے واقیموا الوزن بالقسط ولا تخسروالمیزان. ہر شے اپنے مقام پہ اہم ہے اور اسی طرح ہی کارآمد ہے جیسے اور جہاں اسے رکها گیا ہےنظام فلکی ہو یا ارضی،کوئ بهی دیوہیکل مخلوق ہو یا مچھر جیسی معمولی الخالق کی نظر میں اہم ہے اور اس کی کائنات کا اہم پرزہ ہے. ہمارا روز مرہ کا مشاہدہ ہے کہ کسی بهی انسانی تخلیق میں ایک معمولی کیل یا پرزےکے نہ ہونے سے یا غلط جگہ لگنے سے مشین کارآمد نہیں ہوتی تو الله رب العالمين نے کارخانہ قدرت میں کوئ شے بےکار کیسے بنائ ہوگی (آیت کا حوالہ دیا جائے)
الله رب العزت نے مرد کو عورت پہ ایک درجہ زیادہ کا فیصلہ کرکے عورت کو کمتر نہیں کیا کہ اسکو دوسرے درجے کی عزت دی جائے، اس کی وجہ سے عورت انسان کے درجے سے نہیں گرائ گئ.
دنیا کا نظام چلانے کے لیے جس کا جہاں مقام الخالق نے متعین کیا ہے اس کو بدلنے سے میزان میں خلل پیدا ہوتا ہے.
متعین ربانی نظام کو تسلیم نہ کرنے سے سب سے زیادہ خلل میاں بیوی کے درمیان پیدا ہوتا ہے. اور شیطان کا یہی پہلا اور آخری ٹارگٹ ہے.
شیطان کو ناکام کرنے کے لئے ہوش و خرد سے کام لینا ضروری ہے..
کوئ تربیت، کسی کتاب کا سبق میاں بیوی کو کامیاب میاں بیوی نہیں بنا سکتا جب تک وہ دونوں ایک دوسرے کا لباس نہیں بن جاتے، بدن اور لباس ایک دوسرے سے مطابقت رکهتے ہیں اور کپڑے کو لباس بننے کے لیے اپنے اصل کا وجود بدلنا پڑتا ہے . میاں بیوی دونوں کو لباس کہا گیا ایک دوسرے کا تو دونوں کو درست ناپ کا لباس بننا ہوگا. اور موسم و حالات کے مطابق ڈهالنا ہوگا..
درزی کے ہاتهوں میں آئی قینچی کپڑے کو قطع و برید کرکے درزی کو ہنر مند ثابت کرتی ہے. اپنی شخصیت میں موجود غرور نفس کو نفس امارہ کی قینچی سے قطع و برید کرنا ہوگا. انسان کے لئے یہ ممکن ہے کہ وہ جسم کے مطابق لباس تیار کرلے مگر یہ ممکن نہیں کہ پہلے لباس سی لے اور پهر اس کے مطابق اپنا قد کاٹھ اور جسم کی تراش خراش کر نے کی کوشش کرے. جب میاں بیوی کا رشتہ بن جاتا ہے تو پهر ہی لباس کہا گیا …
جب انسان اپنے جسم سے سمجهوتہ کر لیتا ہے تو لباس اس کے مطابق ہی سیتا ہے تاکہ بهلا بهی لگے اور آسانی بهی محسوس کرے
شریک زندگی کا لباس بننے کے لئے بهی اس کے وجود ظاہری و باطنی سے سمجهوتہ کرنا کامیابی کی شرط ہے.. ساری کائنات ایک دوسرے کے ساتھ سمجهوتے کے اصول پہ قائم ہے.
اس بنیادی رشتے میں نیک نیتی سے الله سبحانه وتعالى کی رضا حاصل کرنے کی غرض سے باہم سمجهوتہ دنیا و آخرت میں سرخروئ کی ضمانت ہے.
تحریر ڈاکٹر بشری تسنیم www.bushratasneem.wordpress.com