سمجهوتہ کیسے ہو؟ – 13

"سمجهوتہ کیسے ہو؟”
سمجهوتہ کے معنی ہیں ایک دوسرے کو سمجه لینا اور اس کو انڈر سٹینڈنگ کہا جاتا ہے.سمجهوتہ یا انڈر سٹینڈنگ یک طرفہ نہیں ہو سکتی، دونوں طرف سمجهوتے کا میلان موجود ہونا چاہئے..بہت  ساری چیزیں ہمیں اس وقت ناگوار بلکہ ناقابل برداشت لگتی ہیں جب وہ اپنی الگ پہچان رکهتی ہوں مگر جب وہ دوسری اشیاء سے سمجهوتہ کر لیتی ہیں تو ایک نئ، مختلف خوشگوار اور قابل قبول شے بن جاتی ہے..  روزمرہ  زندگی میں اس کی مثالیں جا بجا نظر آتی ہیں..مثلاً کهانے پینے کی اشیاء میں مختلف چیزوں کا استعمال مناسب مقدار میں کیا جاتا ہے تو وہ مزے دار ڈش بن جاتی ہے..صرف سرخ مرچ یا دیگر مصالحے الگ الگ کون پهانک سکتاہے؟کیا کوئ مزے دار سالن بنانے والے ان مصالحوں کو  الگ الگ کها کر لطف اندوز ہوسکتا ہے؟یہ گمان رکه کر کہ سب چیزوں نے پیٹ میں ہی جانا ہے.  مصالحے اصل میں ڈالے ہی اس لئے جاتے ہیں کہ ایک چیز کو دوسرے سے ملا کر بہتر چیز پیش کی جائے.ایک مصالحے کے مضر اثرات کی دوسری چیز سے إصلاح ہوجائے اور معتدل ہوجائے. یہی سمجهوتہ اور انڈر سٹینڈنگ ہے . ازدواجی زندگی کی مزے دار ڈش سے لطف اندوز ہونے کے لئے مزاجوں کے مصالحے الگ الگ نہ پهانکے جائیں.
رشتہ تلاش کرتے ہوئے”کفو” کی تلقین اسی لئے کی گئ ہے کہ باہم انسانی کمزوریوں آور خوبیوں کے امتزاج  اور سمجهوتے کا نتیجہ کیا نکل سکتا ہے..؟
قرآن پاک میں بهی زوجین کے درمیاں تعلق کو خوشگواری سے  استوار رکهنے کی یہی کلید بتائ گئ ہے..اور بے شک زوجین کے لئے برابر نصیحت ہے مگر مخاطب مرد کو کیا گیا ہے.اس لئے کہ وہ” قوام” بنایا گیا ہے ..ازدواجی زندگی کو قائم رکهنے یا نہ رکهنے کا بنیادی  فیصلہ اس کے ہاته میں دیا گیا ۚ وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۚ فَإِنْ كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَىٰ أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا)
[Surat An-Nisa’ 19]
اور عورتوں کے ساته اچهی طرح رہن سہن رکهو،اگر وہ تمہیں ناپسند ہوں تو عجب نہیں کہ تم  (اس کی)کسی چیز کو ناپسند کرو اور الله نے اسی میں  بہت سی بهلائ رکه  دی ہو..
سمجهوتہ یا انڈر سٹینڈنگ صرف کسی کی ناپسندیدہ عادت کو برداشت کرنے کا نام نہیں ہے دراصل اپنے ساتهی کی خوبیوں کو سمجه لینا، تسلیم کر لینا،قدر کرنا بهی انڈر سٹینڈنگ ہے..اور عالی ظرف مرد کی مردانگی یہی ہے کہ وہ  قدر کرنے والا ہوتا ہے..اگر کسی خاص سانچے میں ڈهلی ڈهلائ بیوی نہیں ملی تو اس میں بیوی کا قصور نہیں ہے مرد کی اعلیٰ ظرفی کا امتحان ہے کہ  وہ "عاشروهن بالمعروف "کے تقاضے کتنے پورے کرتا ہے؟اور ایک ناپسندیدہ یا اپنے معیار پہ پوری نہ اترنے والی عورت کے اندر کوئ خیر کا پہلو کیسے  تلاش کرتا ہے. ہو سکتا ہے الله سبحانه وتعالى نے شوہر کو یہ کام بهی سونپا ہو کہ جو خیر میں نے اس عورت میں ابهی ظاہر نہیں کی پوشیدہ ہے وہ  اس کی کهوج  کرے.تلااش کرے اس کی جستجو  بهی کرے ویسے بهی مرد میں عورت کے بارے میں تجسس اور اس کو "فتح”کرنے کا جزبہ ہر عمر میں موجود رہتا ہے. .اپنی ایک بیوی کی شناخت اور پہچان  مکمل کرنا چاہیں تو ساری عمر کے لئے ایک بیوی ہی کافی ہے.عورت  جسمانی،زہنی اور جزباتی اور روحانی ہئیت میں ایک گہرا سمندر ہے.اس کی عمیق گہرائ تک پہنچنے کے لئے ایک خاص  ظرف کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ ظرف حکمت سے پیدا ہوتا ہے اور حکمت طلب کرنے سے ملتی ہے اس کے لئے اپنے نفس سے لڑنا پڑتا ہے اور یہی حکمت و دانائی ہے جس کی وجہ سے صالحین کا ساته نصیب ہوتا ہے

(رَبِّ هَبْ لِي حُكْمًا وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ)
[Surat Ash-Shu’ara 83]
اے الله! مجهے علم و دانش عطا کر اور نیکو کاروں میں شامل کر
سمجهوتے کو سمجهنا ہو تو  گلاب اور اس کے ساته لگے کانٹے کی مثال بہترین ہے. کانٹے کی موجودگی پهول کی خوشبو اور پیاری بناوٹ اور رنگت کے لئے  کسی نے مضر  نہیں پائ جس کو گلاب ہاته میں پکڑنا ہے کانٹے سے سمجهوتہ کرنے کا سلیقہ آنا چاہئے.
مرد اور عورت  دو الگ الگ وجود   ہوتے ہیں مگر جب میاں بیوی کے رشتے میں بندهے جاتے ہیں تو ایک ایسے سکے یا نوٹ کی مانند ہوجاتے ہیں جس کی وقعت، اہمیت اور قدرو قیمت  برابر ہوتی ہے  اگر چہ سکے یا نوٹ  کے دونوں رخ پہ الگ تصویر نظر آرہی ہو.. نوٹ یا سکہ اپنی قدروقیمت میں دونوں طرف سے یکساں اہمیت کا حامل ہے..زندگی کی مارکیٹ میں دونوں کو یکساں مواقع عطا کئے گئے ہیں کہ اپنی مہلت عمر کے سکے اور صلاحیت سے” حیوة طیبہ ” گزار  سکیں..

(مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً ۖ وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ)
[Surat An-Nahl 97]
"جو بهی کوئ مؤمن  عمل صالح کرے گا وہ مرد ہو یا عورت، ان کو ہم دنیا میں بہترین پاکیزہ زندگی عطا کریں گار آخرت میں ان کے أعمال کا بہت اچها صلہ عطا فرمائیں گے ”
سمجهوتے اور  ایک دوسرے کو برداشت کرنے سے انسانی تربیت میں مثبت ارتقاء بهی ہوتا ہے..تحمل حوصلہ درگزر اور نفس میں غنا پیدا ہوتا ہے.
مرد اور عورت  ایک ایسی مکمل شے  کے دو الگ  جزو کی مانند ہیں جو زگ  زیگ کی شکل میں  درمیان سےکا ٹ دی گئ ہے نکاح وہ "پاس ورڈ ” ہے جس کے نتیجے میں دو الگ وجود یکجا ہو جاتے ہیں..اب  ٹیڑھے میڑهے  کاٹے ہوئے ٹکڑوں کو ایک کرنے کے لئے نوکدار کونے  چبهیں گے .کمال یہ ہے کہ دونوں ٹکڑے اس مہارت سے جوڑے جائیں کہ جوڑ کا پتہ نہ چلے.  جو جتنی  حکمت رکهتا ہوگا اتنا ہی اس کام میں ماہر ہوگا. .ماہر ہونا بہت بڑی کامیابی ہے اور اس مہارت کے لئے ہمارے سامنے ایک ارشاد نبوی رسولﷺ موجود ہے..
"سب سے بہتر وہ ہے جو اپنی بیوی کے ساته بہتر ہے.”(اس حدیث کا حوالہ لگایا جائے)
اور ماہر ہونے کی گواہی بیوی سے ہی لی جائے گی..
ربنا هب لنا من ازواجنا وزریتنا قرةاعين وجعلنا للمتقين إماما آمین _
تحریر ؛؛ڈاکٹر بشری تسنیم www.bushratasneem.wordpress.com

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s