پہلا ذمہ دار (9)

پہلا ذمہ دار
الله تعالى نے انسان کو بنایا تو اس کا پہلا ابتدائ نمونہ مزکر(آدم) بنایا. نتیجتاً اسی نمونے پہ ہر پہلی ذمہ داری بهی عائد ہوتی چلی گئ..وہ دنیا کا سب سے پہلا شوہر، پہلا باپ ،،پہلا حکمران اور پہلا ہی نبی تها. ان سب ذمہ داریوں میں پہلی ذمہ داری بحیثیت شوہر کے سامنے آئ. الله تعالى کی نظر میں پسندیدہ بننے کے لئے حقوق العباد کا پہلا میدان حقوق الزوجين کی ادائگی تها. اور آدم پہ لازم تها کہ وہ  قوام ہونے کے ناطے  بیوی کا حق پہلے دے پهر  لینے کا مطالبہ کرے.
اولاد آدم کے لئے یہ رشتہ آج بهی اسی قدر اہم ہے جیسا کہ پہلے جوڑے کے لئے تها..شوہر کی ذمہ داریوں میں کچه تبدیلی نہیں آئ اور میاں بیوی کے درمیان تعلق، محبت و مودت کا  رشتہ کسی طور  نہیں بدلا. .سیدنا آدم و حوا کو جس  طرح جزبات کی ڈوری میں باندها گیا اس میں سر مو فرق نہیں آیا. .آدم کو  جس طرح جنت کی ساری نعمتیں  بلا شرکت غیرے پاکر بهی کچه ادهوراپن لگتا تها ،اسی طرح آج بهی آدم کے بیٹے شریک زندگی کی طلب میں پہل کرتے ہیں..اور اس مانگ اور طلب میں کسی زمانے میں کمی نہیں ہوئ.  تو پهر کب اور کیسے احساس ذمہ داری میں کمی واقع ہوگئ؟ حقوق و فرائض کی تقسیم پہ شکوک و شبہات کیوں اور کیسے جنم  لینے لگے.  ؟ معاشرے کی پہلی اور بنیادی   اکائ اپنے مقام سے کیوں  ہٹ گئ ہے؟
غیر مسلم اقوام کی بات تو اس وقت زیر بحث نہیں ہے کہ انہوں نے غیر فطری عائلی زندگی سے فتنہ و فساد برپا کیا ہوا ہے .پریشانی اور فکر امت مسلمہ کی ہے جس کی عائلی زندگی کے اصول و قواعد الہامی ہیں مگر ان  سےانحراف اور غیر مسلم اقوام   سے مرعوبیت نے عجیب صورتحال پیدا کر رکهی ہے.
عموما ہمارے  مسلمان معاشرے میں ” مرد عورتوں پہ نگران ہیں ” والی آیت سے مرد حضرات کی گردن احساس ذمہ داری سے جهکنے کی بجا ئے احساس برتری سے تن  جاتی ہے.قرآن سے یہ حوالہ ہی  یاد رہتا ہے کہ "مارنے کا حق "حاصل ہے. اور   فرشتوں کی لعنت کے بارے میں احساس دلا کرعورت کی تحقیر   کی جاتی ہے.اور یہ کہ جہنم میں عورتیں زیادہ ہونے کا احساس دلاتے رہنے سے مرد حضرات کو تسکین کا احساس  ہوتا ہے سارے قرآن پاک میں سے   چار  شادیوں والی آیت ہر مرد کوضرور یاد رہتی ہے..
مرد کو اپنے مجازی خدا ہونے کا إحساس ہر وقت غالب  رہتا ہے وغیرہ وغیرہ.
سوال یہ بهی تو ہے کہ جب گهر کا سربراہ نگران مرد ہے تو اس کی یہ کیسی نگرانی و تربیت ہے اور کیسی  سربراہی ہے کہ گهر میں اسلامی تہزیب و شائستگی کا فقدان ہے.. کہیں ایسا تو نہیں کہ شوہر اپنی بیوی کی قدر نہیں کرتا اس لئے   عورتیں بهی نا شکر گزار ہیں،مرد کی دوسری شادی کے نام سے پہلی بیوی  ” معلق”  رہ جانے اور عدل نہ ملنےکے خوف میں مبتلا کیوں ہوتی ہے؟ .اسی لئے یہاں لینے کے پیمانے  اور طرح کے ہیں، دینے کے کسی اور طرح کے ہیں..  اخلاقی اقدار کو قائم رکهنے کی ذمہ داری شوہر کی ہے( و عاشروهن بالمعروف) مجازی خدا کہلانے کے لئے مجازاً ان صفات کا پرتو بهی ہونا لازم ہے ، سربراہ گهر کا ہو یا کسی ادارے کا اپنی صفات کا پرتو اپنے ماتحتوں پہ ضرور ڈالتا ہے. سربراہ کی طرف سے جو عنایت کیا جاتا ہے وہی کچه اس کے پاس لوٹ کے آتا ہے. گهروں، اداروں ملکوں کے سربراہ کیا دے رہے ہیں اور جوابا کیا طلب کر رہے ہیں؟  اگر مسلمان شوہر واقعی مسلمان شوہر بن جائے تو بیوی اس کی شکر گزار اطاعت گزار ہو کر رہے.یہ بهی تو غور کیا جائے کہ کس قسم کی صفات والے شوہر کو (اگر سجدہ جائز ہوتا)سجدہ تعظیمی کا حکم دیا جاتا؟ ہر کسی کو  اپنے پیکر خاکی میں وہ جان بهی پیدا کرنے ضرورت ہے جو  مطلوبہ معیار پہ پورا اترتا ہو..  شوہر الله کی حکم عدولی کرتا ہے ناشکری کا رویہ رکهتا ہے اپنے اور الله کے درمیان جو رشتہ اور مقام ہے اسے بهول جاتا ہے تو  پهر کیسے یہ  توقع کرتا ہے کہ سارے ماتحت اس کے مطیع ہوں.جب سربراہ و حکمران کی نیت میں فتور سے برکت آٹه جاتی ہو تو کردار و عمل میں جهول کیا کچه گل نہیں کهلائے گا. .
مسلمانوں کی (الا ماشاءاللہ ) اسی طرز فکر نے اسلام کے عائلی قوانین پہ غیروں کو انگلی اٹهانے کا موقع دیا اور زہنی غلامی میں مبتلا مسلمانوں  نے  معزرت خواہانہ رویہ اختیار کر لیا اور اعتماد کی دولت گنوا بیٹهے. اسی بد اعتمادی کا پہلا نشانہ  شریک زندگی کا انتخاب  کرنے کی سوچ بنی. .گزشتہ کئ دہائیوں سے مسلمان مروں کی اکثریت (إلا ماشاءاللہ ) بیوی کا انتخاب کرنے کے بارے میں خلجان کا شکار  ہے.
مسلمان ہونے کے ناطے  مرد کو شریف اور پاکیزہ لڑکی تو درکار ہے مگر اتنی بهی نہ ہو کہ حجاب اختیار کرے.نمازی بے شک ہو مگر سینما جانے کی بهی شوقین ہو. گهر بهی سلیقہ سے رکهے مگر گهر سے باہر کے امور بهی دیکهے..مردوں سے اعتماد سے بات بهی کرے مگر شوہر کی عزت نفس پہ بهی آنچ نہ آنے دے  ..غرض ایک عجیب آدها تیتر آدها بٹیر قسم کا آئیڈیل ہے. آزاد خیال بیوی کی آزادیاں بهی برداشت نہیں اور قدامت پسند  بیوی بهی شرمندگی کا باعث ہے.. حقیقت یہ ہے کہ بیوی طبعاً شوہر کو خوش کرنے کی طرف مائل ہوتی ہے ..شوہر کس طرح خوش ہوتا ہے بیوی کا اپنا نفس اس  لگن میں لگ کر اپنے رب کی طرف سے اور غافل ہوجاتا ہے. رب سے غافل عورت اپنی اولاد کو رب سے قریب کیسے کرے گی؟ شوہر اپنے نفس کا غلام ہے عورت اس کی خوشنودی چاہتی ہے .بچے ما ں باپ کی سوچ کے مطابق ڈهلتے جاتے ہیں. اس کے بر عکس اگر شوہر اپنے رب کا غلام ہے تو اپنی بیوی کے لئے انتہا درجہ کا مہربان اور کریم ہے کہ وہ رحمان اور رحیم کا غلام ہے… اور یہی صفات عالیہ ہیں جس سے دل جیتے جاتے ہیں جب شوہر بیوی کا دل جیت لے گا تو وہ اس کی مطیع بهی ہوگی. اس کو مجازی خدا کا درجہ بهی دے گی. .خوشی اور سکون کا باعث بهی ہوگی.
معاشرے کو سدھارنا ہے تو الزامات ایک دوسرے پہ لگانے کی بجائے غلطی کو پکڑنا اور اس کی اصلاح کرنا ہے. .  سچے دل سے جائزہ لیا جائے کہ ہمارا معیار بیوی لانے کے معاملے میں کیا ہے؟ترجیحات کا تعین کیا یے؟ذمہ داریوں کی  درجہ بندی کیا ہے؟اور ان کی الله تعالى کے سامنے  جواب دہی کی تیاری کیسی یے؟
ربنا هب لنا من ازواجنا وزریتنا قرةاعين وجعلنا للمتقين إماما آمین

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s