"مسابقت میں آزمائش”
مسابقت کے اس میدان دنیا میں اتارنے سے پہلے آدم و حوا کو آزمایشی طور پہ جنت میں رکها گیا . اور آزمائش کے طور پہ ایک درخت کا پهل کهانے سے منع کیا گیا اس درخت کے پهل میں برائ نہیں تهی بهلا جنت میں کسی برائ کا کیا موقع یہ تو ایک حکم ماننے اور نہ ماننے کی ایک مشق تهی. آدم شیطان کی طرف سے مسلسل اس درخت کا پهل کها لینے کی ترغیب پہ پهسل گئے اور رب کا حکم بهلا بیٹهے پهر "انسان” کہلائے اور نسیان اسکی سرشت کا حصہ بنا .
یہ سب اس لئے کرایا گیا کہ آدم علیہ السلام کی اولاد کو یہ مثال یاد رہے کہ شیطان اپنے ارادوں میں کس قدر پختہ ہوتا ہے وہ اپنے مشن پہ ثابت قدمی سے جما رہتا ہے،ایک حربہ کامیاب نہ ہو تو دوسرا اور پهر تیسرا غرض وہ نت نئے طریقوں سے، نئ چالوں سے انسان کو گمراہ کرنے کے مشن کو جاری رکهتا ہے نہ ہار مانتا ہے نہ مایوس ہوتا ہے.اور انسان سے اپنی دشمنی نبها تا ہے اور اس میں کوئ رو رعایت یا کمی نہیں کرتا اور الله تعالی نے انسان کو متعدد بار اس دشمن کے بارے میں متنبہ کیا ہے اس کی چالوں سے بهی خبر دار کیا اوراس کی چالوں سے بچنے کی تدابیر بهی بتائیں اور عملی نمونے بهی دکهائے. اس کو دشمن سمجهنے والے اور اس کو دوست سمجهنے والوں کی زندگی کو واضح کیا.
انسان اور شیطان کے درمیان اس مستقل رہنے والی کشمکش کا پہلا نشانہ "پہلا جوڑا” ہی تها. دنیا میں اتارے گئے ان دو انسانوں میں پوری دنیا موجود تهی،اور ان دونوں کو بهی خاندانی قواعد و ضوابط کی تربیت کے ساته اتارا گیا تها.آدم کو حوا پہ فوقیت حاصل تهی کہ اس کی تخلیق پہلے ہوئ اور ابهی حوا "پردے” میں تهی .جب دونوں کو جنت میں داخل کیا گیا تو الله تعالى نے آدم عليه السلام کو مخاطب فرمایا
"یا آدم اسکن أنت وزوجک الجنة…” آدم اپنی بیوی کو لے کر جنت (گهر )میں داخل ہو اس إحساس کے ساته کہ بیوی کی ذمہ داری آدم کے کاندھے پہ ہے.وہ اس کا کفیل ہے پهر فرمایا "وکلا منها رغدا حيث شئتما ”
دونوں مل جل کے جہاں سے چاہو کهاو”.
آدم کی جب گهر بسانے اپنی شریک حیات لانے کی خواہش پوری ہو جائے تو پهر یہ جان لے کہ وہی گهر کا کفیل ہے اور اسی لحاظ سے نگران بهی وہی ہے ذمہ دار بهی آدم ہے. سورہ طه میں آیت نمبر121 میں فرمایا "فاکلا منها فبدت لهما سوآتهما طفقا یخصفان علیهم من ورق الجنه ” یہاں تک تو آدم و حوا دونوں کا ذکر ہے مگر اگلے حصہ میں صرف آدم کا ذکر فرمایا” وعصی آدم ربه فغوی” جو ذمہ دار ہوتا ہے اس کا محاسبہ بهی سخت ہوتا ہے. ماتحت کی غلطی نگران کے کهاتے میں جا سکتی ہے. زیر نگین کا یا رعایا کا محاسبہ بعد میں پہلے نگران کی رپورٹ سنی جاتی ہے.اگر اس نے اپنے حصے کا کام دیانت داری سے انجام دیا تو پهر زیر تحت کی کارکردگی دیکهی جاتی ہے کہ اس نے اپنے نگران کی کتنی اطاعت کی اور تعاون کیا ..
عائلی نظام بالکل متوازن رکها گیا ہے. حق لینے سے پہلےحق دینے کا اصول اس رشتے میں بنیادی حیثیت رکهتا ہے. اطاعت کرنے کے وسائل اور طریقے سکهانے کے بعد اطاعت کا مطالبہ ہے،محبت عطا کرنے کے بعد اس کا حق ادا کرنے کا مطالبہ بنتا ہے. الله تعالی نے خود بهی انسان کو پہلے سب کچه عطا کیا پهر واپس کچه ادا کرنے کا مطالبہ کیا. بے عقل اور پاگل معزور سے تو فرض عبادت اور اطاعت کا بهی مطالبہ نہیں کیا. اپنے بندوں کو جتنا دیا اس سے کم ہی مانگا.
مرد میں کچه صلاحیتیں اور خوبیاں فطرتا ودیعت کی گئ ہیں ہیں کہ وہ اپنے گهر والوں کے لئے رزق کا انتظام کرکے خوشی اور اطمینان محسوس کرتا ہے ان پہ خرچ کرکے اس کی مردانگی کو تسکین ملتی ہے.اور وہ اس بات پہ غیرت کها تا ہے کہ کوئ اس کے گهر والوں پہ خرچ کرے یا اسے نکھٹو یا نا اہل سمجهے.. مرد صرف کمانے کا ذمہ دار نہیں ،بیوی بچوں کے معاملات، تربیت دینی و اخلاقی کا بهی نگران ہے. اسی طرح عورت فطرتاً اپنے شوہر کی کمائ اور اس کے حسن کردار پہ فخر کرتی ہے.اور گهر کے نظام کو اپنے شوہر کی کمائ سے بحسن و خوبی چلا کر قلبی سکون محسوس کرتی ہے.. میاں بیوی اپنے اپنے دائرے میں اپنا اپنا کام دلی رغبت سے انجام دیتے ہیں تو دونوں کا دشمن شیطان اس نظام میں خلل ڈالتا ہے.اس کے لئے وہ مختلف حربے استعمال کرتا ہے.ایک دوسرے کو ذمہ داریوں سے فرار کی راہیں ہموار کرنے کی کوشش کرنا.حقوق و فرائض کی تقسیم پہ شکوک شبہات پیدا کرنا .تمناؤں اور خواہشاتِ نفس کی تسکین کے لئے سبز باغ دکها تا ہے غرض وہ اس محاذ پہ ڈٹ جاتا ہے نہ تهکتا ہے نہ مایوس ہوتا ہے نہ پیچھے ہٹتا ہے.ہر روز ایک نیا حربہ ہے روزانہ نئ چال ہے.
"الرجال قوامون علی النساء ” کے قانون کو مرد غلط استعمال کرےگا اور عورت اس کو ظالمانہ نظام سمجهے گی تو شیطان اپنے مقصد میں کامیاب ہوگا اور پهر ساری انسانیت اپنے ہاتهوں خود ذلت اٹهائے گی.ہر مسلمان مرد اپنے گهر میں اپنا کردار ویسا ہی ادا کرے جیسا کہ الله تعالی کو مطلوب ہے تو نہ کسی گهر کے گهر والے شیطانی چالوں میں آئیں نہ ہی گهروں کے سکون برباد ہوں اگر شیطان کے پاس ہزاروں حربے ہیں تو کیا مومنوں کو آلله پہ بهروسہ نہیں ہے اگر شیطان مایوس نہیں ہوتا تو کیا مومنوں کو علم نہیں کہ مایوسی کفر ہے..
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت بدلنے کا