​”   سفر در سفر”

​”   سفر در سفر”

جب سے ہوش سنبهالا سفر ہجرت کی داستانیں سننے کو ملتی رہیں . ان داستانوں کا ہی اثر تها شاید کہ خواب بهی سفر کرنے کے ہی آتے رہتے تهے. خوابوں کی نگری کی سیر کرتے کرتے زندگی نے لڑکپن سے ہی پاؤں میں پہیہ بانده دیا.جب ازدواجی زندگی شروع ہوئ تو شریک زندگی سفر کے شوق میں ہم سے بهی دو ہاته آگے پائے گئے. دونوں  ایک ساته اس کرہ ارضی کے صحراوں،سمندروں، میدانوں ،دریاؤں  پہاڑوں اور فضاؤں میں اتنا گهوم پهر چکے ہیں کہ زمین گول نہ ہوتی تو آسمان کے چراغ ماہتاب تک پہنچ کر واپس آجاتے. ..

2016 ءاس لحاظ سے بازی لے گیا کہ  چه مہینے میں دو بار یورپ کے گهاٹ گهاٹ کا پانی پینے کا موقع ملا. اگر کوئ سفر کا ذوق رکهتا ہو اور شریک سفر ہم ذوق ہو   تو سفر کا لطف دوبالا ہوجاتا ہے..  دانا کہتے ہیں کہ اگر کسی کے اچهے یا برے اخلاق و عادات کا اندازہ لگانا ہو تو اس کے ساته سفر کر کے دیکها جائے تو الحمدلله اس معاملے میں ہم میاں بیوی ایک دوسرے کے لئے بہترین شریکِ سفر کا ایوارڈ حاصل کر سکتے ہیں. یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے یہ بڑے نصیب کی بات ہے..

مارچ 2016 ء کے بعد

گزشتہ ستمبر 2016ء  کے  پورے تیس دن سفر کرنے کے معاملے میں ہم ابن بطوطہ کے پیرو کار بنے رہے.  تیس دن میں آٹه ملکوں کے ستائیس  شہر اور  چار مختلف سمندروں کے  ساحل اور .چوبیس مرتبہ مختلف ملکوں کے بارڈر کراس کیے. 

ہالینڈ، اٹلی، فرانس،برطانیہ،جرمنی، سپین،پرتگال     سویزرلینڈ کے سفری ذرائع کی کوئ سواری الله تعالى نے ہماری خدمت سے محروم نہ رکهی…

"سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے "کے مصداق 

ہر ملک میں مختلف قسم کے میزبانوں سے واسطہ پڑتا رہا.  ملکوں اور شہروں کے اپنے موسم اور مزاج ہوتے ہیں اور ان کے باسیوں کے اخلاق و انداز ان کی تہزیب کی عکاسی کرتے ہیں .. 

بحیثیت انسان جو  فطری اوصاف ہر انسان میں ہوتے ییں وہ تو کسی مذہب، تہزیب کی شرط کے بغیر ہی ہونے چاہئیں وہ تو فطرت نے ودیعت کر دئے ہیں..خوشی غمی کے جزبات، فطری داعیات کے میلانات انسانوں کے ایک جیسے ہونا بهی اس رب الناس کی خاص نعمت ہے..اس کا اندازہ مختلف  زبانیں بولنے والی اجتماعیت میں رہنے سے ہوتا ہے..     جس طرح ہر خطے کے پہاڑ ،ایک سے ہیں کهیت کهلیان اسی رنگ کے ہیں سمندر ویسا ہی نظر آتا ہے فضا میں کوئ تبدیلی نہیں ہے. انسانوں کی ساخت وہی اعضاء کی مالک ہے.  مگر سب کچه ایک جیسا ہونے کے باوجود سب کچه ایک جیسا نہیں ہوتا. شاید انسان کی جزباتی کیفیت، لگاؤ ہر جگہ اور ہر چیز کی کیمسٹری بدل دیتا ہے.سوئزرلینڈ  میں بهی اپنے پیارے ملک پاکستان کے گلیشئر  یاد آتے رہے.عجب بات ہے وینس میں اپنے کمرے کی کهڑکی سے سامنے والے گهر کی چهت دیکه کر مدینہ منورہ کا ایک  گهر  یاد آگیا. اچانک سے  احساس کی کوئ کڑی کہاں سے کہاں جا ملتی ہے؟ سبحان اللہ. .

وینس کی گلیوں میں بہتا پانی "تجری من تحتها الأنهار” یاد دلا دے تو وینس کی حسین رومانٹک شام کی خوبصورتی میں جنت  کی جهلک نظر آنے لگتی ہے الله سبحانه وتعالى نے یہ حسن اس لئے بکهیر دیاکہ میرے بندو؛  اس کو دیکهو  اور مجه تک پہنچو.  

دنیا بہت حسین ہے ہر خطے کا اپنا ایک خاص حسن ہے. ضروری نہیں کہ کہیں جا کے تلاش کیا جائے اس کی شان کے جلوے جابجا دیکهنے کو موجود ہیں..کائنات کی کوئ جگہ ایسی نہیں جہاں اس کی کوئ نشانی موجود نہ ہو..

الله رب العزت نے ایک  کتاب ہدایت اتاری جس  میں تدبر کی دعوت دی گئ ہے. اور تدبر کے لئے کائنات مسخر کر دی گئ ہے.کتاب کائنات ایک کهلی کتاب ہے . قرآن جو نسخہء کیمیا ہے اس کا فہم بند کمرے میں بیٹه کر کبهی حاصل نہیں ہوسکتا.  أفلا یتدبرون؟ پہ عمل کرنےکے لئے الله تعالى کی کهلی نشانیاں دعوت دے رہی ہیں ،ہر انسان اپنے ارد گرد  کے ماحول میں رکهی کهلی کتاب کائنات کا مطالعہ کرے تو اپنے رب  کی نشانیوں کو تلاش کر لے گا. جب محبوب کو ملنے کا نشان راہ مل جاتا ہے تو  پهر ملاقات بهی آسان ہوجاتی ہے. ملنے کی تڑپ بڑه جاتی ہے رفتار تیز ہو جاتی ہے . خزاں کا ٹنڈ منڈ درخت ہو یا شجر ثمر دار،  عرب کےصحراء میں ریت کا ٹیلہ ہو یا سویزرلینڈ کے گلیشئر، کسی جنگل کی بیاباں پگ ڈنڈی ہو یا پیرس کی رنگین و پر رونق گلیاں،  ہر جگہ اس جہاں کے مالک کی نشانی موجود ہے..اور ہر مقام یہ سوال کر رہا ہوتا ہے

فبای آلآء ربکما تکذبان؟ 

رب العالمين  کی پکار پہ کون مڑ کے دیکهتا یا رک کے سوچتا ہے؟؟؟؟؟؟

(زیر ترتیب ،سفر نامے سے اقتباس )

تحریر ::ڈاکٹر بشری تسنیم 

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s