– بسم اللہ الرحمن الرحیم
سورہ المآئدہ .(5)
غزوہ بدر و أحد کے حالات کے تناظر میں امت مسلمہ کی بہت سی جہتوں سے تربیت ہو چکی تهی.اسلامی ریاست کافی پهیل گئی تهی،عرب میں اب اسلام نا قابل شکست طاقت بن کر أبهر رہاتها،اسلامی ریاست کی مکمل تشکیل ہو چکی تهی.زندگی کے ہر پہلو سے اسلام ایک الگ شان کے ساته مستقل تہزیب کے طور پہ قائم ہو چکا تها. .صلح حدیبیہ نے فتح مکہ کا راستہ ہموار کر دیا تها.
مزہبی، تمدنی، اور سیاسی زندگی کے متعلق مزید احکام و ہدایات دی گئ ہیں.
امت مسلمہ کو اقتدار حاصل ہونے کے بعد عدل پہ کاربند رہنے کی تلقین.اور گزشتہ اہل کتاب کی باغیانہ روش سے بچنے کی نصیحتیں شامل ہیں. .
ہمسایہ قوموں سے تعلقات کی ہدایات دی گئ ہیں حرام و حلال کی قیود اور اہل کتاب کے ساته معاشرتی تعلقات کی تفصیل بتائی گئ ہے.
اسلامی ریاست کے حکمرانوں کو ان کی زمہ داریاں بتائی گئ ہیں کہ وہ اسلامی قوانین کو نافذ کریں سماجی، اخلاقی،سیاسی ماحول کو نیکی کے لئے سازگار بنائیں. .
اس وقت دنیا کے نقشے پہ جتنے بهی مسلم ممالک ییں ان کے حکمرانوں کے سامنے یہ سورت ایک حجت ہے.
کہاں ہے عدل و انصاف؟
کہاں ہے جرائم پہ اسلامی قانون کا نفاز؟
کیا یہ آیت ان کے کانوں نے نہیں سنی؟
جو لوگ الله کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلے نہ کریں وہی کافر ہیں،ظالم ہیں ،فاسق ہیں آیت47
اور یہ کہ آج دین مکمل کر دیا گیا ہے نعمت اسلام کا إتمام ہو چکا ہے.اب اس کے علاوہ کوئی قانون، فلسفہ زندگی قابل قبول نہیں رہا . اگر کوئی
اپنے دین سے پهر تا ہے تو پهر جائے الله اور بہت سے لوگ پیدا کرےگا جو الله کو محبوب ہوں گے اور الله أن کو محبوب ہوگا جو مومنوں پہ نرم اور کفار ہی سخت ہوں گے،جو الله کی راہ میں جدوجہد کریں گے اور کسی ملامت والے سے نہ ڈریں گے،یہ الله کا فضل ہے جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے (آیت54)
کیا آج کے مسلمان حکمران مومنوں پہ سخت اور کافروں کے لئے نرم نہیں ہیں ؟کون کون سے لوگ ہیں جوآئینہ میں کافر ظالم اور فاسق نظر آرہے ہیں؟؟؟
پهر ہم الله سبحانہ و تعالیٰ سے گلہ کرتے ہیں تیرے حبیب کی امت کی حالت زار کیوں نہیں بدلتی؟
اللهم إنا نجعلک في نحورهم و نعوذ بک من شرورهم. .آمین
دعا کی طلب گار ..بشری تسنیم