ہر انسان کو یہ زعم ہے کہ وہ منافق نہیں ہے۔۔۔ اور ہر انسان کو دوسرے سے یہ شکوہ ہے کہ لوگ منافق ہیں۔
ہم اپنی رائے کو مقدم جانیں یا دوسروں کی، بہرحال منافقت کی زد میں آتے ہی ہیں۔ عقل عیار ہے سو بھیس بدل لیتی ہے۔ اسی لیے ہم اپنی منافقت کو حکمت و مصلحت کا خوب صورت لبادہ اوڑھا دیتے ہیں اور دوسروں کو حکمتوں اور مصلحتوں کو بے لباس سمجھتے ہیں۔
اپنی چالاکی، عیاری کو عقل مندی، ہوشیاری، فراست کا نام دیتے ہیں۔ دوسروں کی سمجھداری کو تسلیم کرنے پہ دل آمادہ ہی نہیں ہوتا۔
دوسروں پہ تنقید، اعتراض کو خیرخواہی کا نام دے کر دل کی جلن پر مرہم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ اپنے بارے میں کسی کی طرف سے خیرخواہی کو بھی عداوت کا نام دیتے ہیں۔
دنیاداری کے تقاضے جانتے ہوئے سارے مکروہ عزائم پور ے کر لیتے ہیں۔ دوسروں کی دنیاداری پر ہر طرح کی تنقید اپنا فرض سمجھ کر کرتے ہیں۔
تقویٰ کے پیمانے ہماری نظر میں اپنے لیے کچھ اور ہوتے ہیں، دوسروں کے تقویٰ کو ہم کسی اور پیمانے سے ناپتے ہیں۔
ہم جب بااختیار ہوتے ہیں تو اپنے فرائض اور حقوق کی لسٹ اور طرح کی بناتے ہیں۔ دوسرے بااختیار ہوتے ہیں تو ان سے کچھ اور توقعات وابستہ کرتے ہیں۔
ہم دوسروں کا دل دکھا کر ان سے محبت کی توقع رکھتے ہیں۔ جب ہمارا دل دکھے تو ہم انتقام اور بدلے کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔
یہ اور اس طرح کے بے شمار تضادات معاشرے کو وہ سکون مہیا نہیں کرسکتے جو انسانی معاشرے کا خاصہ ہونا چاہیے۔ دو لوگوں کا معاملہ ہو، دو خاندانوں کا یا دو قوموں کا، یہی منافقت اور تضادات فساد اور باہمی نزاع کا باعث ہیں۔ جہاں بھی مفادات کا ٹکراؤ ہوگا حقوق و فرائض کا معاملہ ہوگا، یہی دوغلی پالیسی اور منافقت دوری کا باعث ہوگی۔
دل میں کچھ اور منصوبے ہیں، زبان پہ کچھ اور باتیں ہیں۔ بصارت اور بصیرت کا ٹکراؤ ہے۔ دل اور دماغ کی جنگ ہے۔ حق و باطل کی کشمکش ہے۔ حقوق و فرائض کا جھگڑا ہے۔ ہم معاشرے میں امن و سکون کا ذریعہ بننا چاہتے ہیں تو ہمیں خود کو بدلنا ہوگا، اگر منافقت ہے تو اس کو تسلیم کرنا ہوگا۔ بیماری کا تعین کرنے کے بعد ہی اس کا علاج یکسوئی سے کیا جا سکتا ہے۔ بیمار انسان اس بات کا منتظر نہیں رہتا کہ دوسرے بیمار بھی صحت مند ہو جائیں گے تو پھر وہ بھی اپنا علاج شروع کرے گا۔
ہم اپنے اندر جھانکیں، دل کی باتوں پہ کان دھریں۔ ملامت کرنے والے نفس کی بات سنیں، ضمیر بہت اچھا استاد، بہت پیارا دوست ہے۔ یہ منافق نہیں ہے جو بھی کھری اور سچی بات ہے اسی کی طرف سے ہے۔ اگر نفس لوامہ سے ہاتھ چھڑایا تو نفس امارہ ہاتھ پکڑ لے گا۔ انسان کو لازما کسی نہ کسی کا ہاتھ چاہیے ہوتا ہے۔ بغیر سہارے وہ نہ جنت میں جاتا ہے اور نہ دوزخ میں۔ اب فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے کہ کس کا ہاتھ تھامنا ہے۔ نفس لوامہ کی صحت کمزور ہو جاتی ہے جب انسان اسے اپنے سے بڑھ کر لیتا ہے اور پھر نفس امارہ خوب تنومند ہونے لگتا ہے۔ نفس امارہ منافقت کی کھیتی کو پانی دیتا ہے، اور منافقت نفس امارہ کی احسان مند ہوتی ہے۔
حکایات سعدی میں درج ہے ’’ایک بزرگ سے میں نے پوچھا: اس بات کے کیا معنی ہیں کہ تیرے دشمنوں میں سب سے بڑا دشمن تیرا نفس ہے جو تیرے دونوں پہلوؤں کے اندر ہے۔‘‘
انہوں نے فرمایا:
’’اس کا مطلب ہے کہ اگر تو دشمن پر احسان کرے تو وہ تیرا دوست بن جاتا ہے۔ لیکن اپنے نفس امارہ سے جس قدر نرمی کرے وہ زیادہ دشمنی کرتا ہے۔ یعنی تجھے خدا سے غافل کر دیتا ہے۔‘‘
عقل مند سب سے زیادہ اپنی ذات کا خیر خواہ ہوتا ہے اور اپنی ذات کے ساتھ خیرخواہی، اسی صورت میں ممکن ہے جب اس پہ کڑی نگاہ رکھی جائے۔ ہر کام سے پہلے اور ہر عمل کے بعد اپنے آپ کو کڑی تنقید سے گزارنے والے دوسروں کی ناقدانہ نظروں سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ اپنی خواہشات نفس پہ سخت پہرہ رکھنے والے ہی شیطان کی دخل اندازی اور اس کی طرف سے پھیلائے ہوئے شر و فساد سے مامون رہ سکتے ہیں۔ نفس امارہ ایسا درندہ ہے جس کے ساتھ بھلائی کرنے سے تکلیف اور آزار کا خطرہ کم نہیں ہوتا۔ جو نفس امارہ کو کنٹرول میں رکھتا ہے امن میں رہتا ہے۔
آئیے ایک بار پھر جائزہ لیں۔
*۔۔۔ ہم جن کو مصلحتیں، حکمتیں گردانتے ہیں، کیا اللہ تعالیٰ کی نظر میں بھی وہ اتنی ہی مصلحت و حکمت ہوگی؟
*۔۔۔ رخصت اور عزیمت کے معیارات کے در پردہ کہیں ہماری منافقت تو کوئی گل نہیں کھلا رہی؟
*۔۔۔ تقویٰ کے جو معیار ہم نے وضع کر رکھے ہیں کیا قرآن پاک کی کسوٹی پر وہ پورے اترتے ہیں؟
*۔۔۔ بندوں اور اللہ سے کیے جانے والے وعدوں، مستقبل کے ارادوں، منصوبوں میں قلب و زبان ہمنوا ہیں؟
*۔۔۔ کیا معاشرے کی اصلاح کے لیے ہم نے جو اصول و قواعد اور منصوبے بنا رکھے ہیں وہ ہمارے اوپر بھی اتنے ہی لاگو ہوتے ہیں جتنے کہ دوسروں پر؟
پتہ نہیں ہم جانتے ہوئے بھی ان جان کیوں ہوں؟ انسانی سرشت کیسے اپنا نظریہ بدل لیتی ہے۔۔۔ کہ کل جو دوسروں کے ساتھ برا ہوا، وہ ان کے اعمال کا نتیجہ ہے، لیکن آج جو ہمارے ساتھ برا ہو رہا ہے تو یہ دشمنوں کی سازش ہے۔
ہمیشہ دشمن تو ایک ہی ہے اور سازش بھی وہی کر رہا ہے۔ دشمن کو دشمن نہ سمجھنا بھی حد درجہ کی منافقت ہے۔ گھر ہوں یا ملک، دشمن اور دوست کی تمیز کوئی کرنا ہی نہیں چاہتا۔۔۔ گھر برباد ہوو رہے ہوں تو کس کا قصور ہے؟ گھر کا سربراہ بااختیار ہے، وہ جس کو چاہے قصوروار ٹھہرائے حالانکہ وہ سب کچھ جانتا ہے، لیکن اختیارات کا نشہ ہے۔ ملک برباد ہو رہا ہے تو عوام کا قصور ہے۔ بے چارے کمزور بے اختیار لوگ، ظلم بھی سہیں اور قصور بھی تسلیم کریں۔ وہ ظالم ہوکر بھی ظلم سے بری ہے۔ بے وفا ہوکر بھی وفادار کہلاتا ہے۔ عوام سے بے وفائی ہے، اپنے آقاؤں سے غیروں سے وفاداری ہے۔ یہ تو منافق ہی کو زیب دیتا ہے کہوہ جب چاہے جس کے سامنے چاہے اپنی وفائیں پیش کرے۔ بحیثیت مومن زندگی جینا ہے تو پھر دل کو ایسا بنانا ہوگا کہ دل کو ہتھیلی پر رکھ کر بازار میں گزرا جائے تو اس شیشے میں کوئی بال نہ آیا ہوا ہو۔ صاف و شفاف آئینہ، صحیح سالم دل جس کو قلب سلیم کہا جاتا ہے۔ جب حشر کا میدان ہوگا انسان کے کام کوئی نہ آئے گا۔ نہ مال نہ اولاد، نہ حسب نسب نہ اختیارات۔
الا من اتی اللہ بقلب سلیم۔