اے مرے کشمیر ،میں تجھ سے دور صحراؤں میں آبلہ پا پھرتی ہوں۔ میں تجھ سے دور ہوں مگر مرے دل کی اتھاہ گہرائیوں میں ترا ہی درد ہے اور یہ درد دل میں آ کر ٹھہر گیا ہے۔ ایک کانٹے دار شاخ دل میں پیوست ہے جس کا ہر کانٹا مجھے تری یاد، تری کسک اور ترا احساس دلاتا ہے۔
اے مرے کشمیر، مرے دل میں ترے نام کی ایک شمع فروزاں ہے اس سوزش میں احساس تپش بھی ہے تو عزم نو کی حرارت بھی۔
اے مرے کشمیر! اپنے پیچھے ایک واضح غم چھوڑ آئی ہوں۔ کوئی اس غم کا احساس نہیں کر پاتا۔ یہ غم آشنائی میرے وجود میں سرایت کر گئی ہے۔ فرقت کا وہ لمحہ جب چشم نم ہر در و دیوار کو دھنلا دیکھ رہی تھی۔ آج بھی اسی طرح آنسو میرے حلق میں تلخی کا پھندہ بنے ہوئے ہیں اور وہی تلخی میری رگ و جان میں گھل گئی ہے۔ خاموشی سے ٹپکنے والے آنسو دل کی زمین کو آج بھی سیراب کر رہے ہیں۔ ہاں اے مرے کشمیر ! میرے دل پہ ٹپکنے والے یہ آنسو ہی میرے لئے زندگی کی علامت ہیں۔ میں یہ آنسو جھلمل کرتے موتی بنا لوں گی اور میں ان موتیوں سے حسین مستقبل کی، تری آزادی کی مالا بناؤں گی میرے خیالوں میں یہ موتی تیرے ملن کی آس دلائیں گے آگہی و شعور کے پیارے پیارے ساتھی مجھے ایمان و ایقان کا نور عطا کریں گے۔ حوصلے کا پیغام دیں گے، اس موسم کا ان لمحوں کا جو ہم نے ساتھ گزارا ہے اور سوچ کی پیاری پیاری سکھیاں رنگ حنا دے جائینگی ان لمحوں کو، موسم کو جو ہم ساتھ گزاریں گے۔ اے میرے کشمیر!