انسان اپنے سارے حواس سے کام لے کر بھی اُس علم کو نہیں پہنچ سکتا جو اس کی روح کو شاد کام اور مطمئن کر سکے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے پہلے انسان کو وحی اور نبوت و رسالت اور علم کے خاص وصف سے آراستہ کیا اور انسانوں کی ہدایت کے لیے یہ سلسلہ قائم رکھا۔ یہاں تک کہ انسانیت کے ارتقائی مدارج علم کے اس دور میں داخل ہو گئے جو انسانیت اور دنیا کا آخری دور کہلاتا ہے۔ اور یہ دور خاتم النبییّن محمد رسول اللہ کا دور ہے۔ اور علم وحی کا دور ہے۔
انسان کی طلب و جستجو، علم کی پیاس، تکمیل انسانیت کے سارے راز خاتم النبیین کی زندگی میں سمیٹ دیے گئے۔ تکمیل تعلیم و دین کے ساتھ ساتھ صحابہ کرام کی ایک ایسی جماعت بھی تشکیل دی گئی جس نے ’’علم کے سیکھنے اور سکھانے‘‘ کا حق ادا کر دیا، یہی وجہ ہے کہ علم کے ساتھ ساتھ عمل و اطاعت کے ایسے ایسے نادر نمونے ظہور پذیر ہوئے کہ چشمِ فلک نے ایسا کبھی نہ دیکھا۔ یہ روشن ستارے رہتی دنیا تک جگمگاتے رہیں گے۔ یہ سچے اور کھرے لوگ، جنھوں نے حق بات کو اتنا ہی حق جانا اور مانا جس قدر کہ وہ تھی، نہ دین میں غلو کا شکار ہوئے اور نہ ہی احترام و عقیدت کے نام پر شریعت کی قائم کردہ حدود پار کیں۔
خاتم النبییّن کی حیاتِ مبارکہ اور دیدارِ نبی کی سعادت کو پانے والے سے بڑھ کر دنیا میں کوئی سعادت مند نہیں ہو سکتا۔ حضور اکرم کی شخصیت بحیثیت ایک انسان کے، بحیثیت نبی و رسول، بحیثیت منتظم اعلیٰ، صاحب اقتدار اور سپہ سالار، کتنی جہتیں تھیں جن کو سامنے رکھ کر صحابہ کرام نے خاتم النبیین کے مقام و مرتبہ کو نہ کچھ کم کرنا تھا نہ زیادہ، اور وہ اس امتحان میں پورے اترے، اس حکم ربی کا احساس : »یَا اَیُّھَا الَّذِینَ اٰمَنُو لَا تُقَدِّمُوا بَینَ یَدَیِ اللّٰہِ وَرَسُولِہِ« ’’اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو۔‘‘ (حجرات9:) ہمیشہ اپنے دلوں میں قائم رکھا۔
ذرا سوچیئے! کیا دنیا میں کسی کے لیے کبھی اتنا مشکل مرحلہ آیا ہی؟ ہم نے تو خاتم النبیین کی شخصیتِ عظمیٰ کو بحیثیت رسول و نبی کے تسلیم، اسوۂ کامل کے طور پر کتابوں میں پڑھا اور حضور اکرم کو چلتا پھرتا قرآن جانا اور بس۔ اور آپ سے محبت و عقیدت کے پیمانے ہم نے اپنے گھڑ لیے جس کے نتیجے میں میلاد کی محفلیں اور تقاریب منعقد کیں، نعتیہ مشاعرے اور مقابلے کرائے، ایوارڈ دئیے اور وصول کیے، اور اسی کو کُل دین سمجھ لیا۔ گویا کہ نبی سے عقیدت و محبت کے سارے رشتے نبھا دیے۔
آئیے! مل کر سوچیں کہ جو عقیدت و محبت ہمارے دلوں میں حضور اکرم کے لیے ہے وہ جائز اور قابل قبول بھی ہے یا نہیں؟ کیا صحابہ و صحابیات جیسی محبت ہم کر رہے ہیں؟ کیا محبت کے قرینہ سے صحابہ و صحابیات واقف نہ تھے؟ تو پھر کیا وجہ ہے کہ ہمیں میلاد النبی کے جشن ان کے دور میں کہیں نظر نہیں آتے۔ حضور اکرم نے فرمایا: ’’بہترین لوگ میرے زمانے کے ہیں، یعنی صحابہ کرام پھر جو ان (صحابہ) سے متصل یعنی تابعین عظام پھر وہ جو ان (تابعین) سے متصل یعنی تبع تابعین۔‘‘
(صحیح البخاری: 2651)
پھر ارشاد فرمایا: ’’کامیابی کی خوشخبری ہے اس کے لیے جس نے مجھے دیکھا مجھ پر ایمان لایا اور خوشخبری ہے اس کے لیے جس نے مجھے دیکھنے والے کو دیکھا۔‘‘
(السلسۃ الصحیحۃ: 1254)
تاریخ اسلام کے دورِ اوّل کو دیکھیں، کہیں کسی مقام پر حضور کے یومِ پیدائش پہ کسی قسم کا کوئی رواج یا رجحان نہیں پایا جاتا۔ تابعین بلکہ تبع تابعین تک اس قسم کی رسومات کا نام و نشان تک نہ تھا۔ تو کیا ہم اپنے اعمال پر اتنے نازاں ہیںکہ ان خوش قسمت لوگوں سے بھی زیادہ اور نئی طرز پر محبتوں کی داغ بیل ڈال کر مطمئن اور خوش ہوتے رہیں؟ کیا جشن عید میلاد النبی منانے کے زیادہ حق دار صحابہ کرام نہ تھی؟ وہ کیوں اس کار خیر سے محروم رہ گئی۔ جبکہ ان کی خوش بختی کی گواہی خود حضور دے رہے ہیں۔
پھر ائمہ اربعہ کا دور آتا ہی۔ کسی امامِ مکرم نے 12 ربیع الاوّل کے روز جشن منانے اور سبیلیں لگانے کی تعلیم نہ دی، نہ اس دن کوئی خاص پروگرام کیا۔ چھ صدیاں گزر جاتی ہیں حضور اکرم کی ہجرت کو، لیکن ربیع الاوّل کی بارہ تاریخ ویسے ہی گزر جاتی ہے جیسے صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین، ائمہ اربعہ اور بعد کے دورِ اسلام میں گزرتی رہی تھی۔
تاریخ ابن خلکان و قاموس میں درج ہے کہ 604ھ میں پہلی بار ربیع الاوّل میں عید میلاد شیخ عمر بن محمد نے شروع کی جو غیر فقیہ اور مجہول شخص تھا۔ اور بادشاہوں میں سرکاری طور پر اس کو رواج دینے والا ابو سعید کو کپوری بن ابو الحسن علی سبگتگینترکمانی ہے جو ملک معظم مظفر الدین کے لقب سے جانا جاتا تھا۔ سلطان صلاح الدین نے اس کو اربل شہر پر عامل مقرر کیا ہوا تھا۔
دستورِ زمانہ ہے کہ ہر مذہب و ملت کے لوگوں میں کچھ ایسی باتیں اور رسوم و رواج اپنی جگہ بنا لیتے ہیں جو ہوتے تو صرف مقامی یا خاندانی ہیں مگر ’’امر بالمعروف اور نہی عن المنکر‘‘ ایسے فریضے کی کمزوری اور غفلت سے وہ مذہبی احکام سے بھی زیادہ واجب التعمیل سمجھ لیے جاتے ہیں۔ اس طرح مذہبی تعلیمات پر خاندانی و مقامی رسم و رواج غلبہ پالیتے ہیں اورہر سال ان رسومات میں بدعات کا اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے اور اصل مذہبی فرائض نسیًا منسیًّا ہو جاتے ہیں۔ نوبت یہاں تک آ جاتی ہے کہ دین کے فرائض کسی کو یاد بھی نہیں آتے لیکن ان بدعات سیّۂ کا چلن فرض عین ہو جاتا ہی۔ برصغیر میں اکثر مسلمان بادشاہ دین اسلام سے ناواقف تھے۔ ہندو عورتوں سے شادیاں کرنے کا نتیجہ اور بھی زیادہ ہولناک تھا۔ ہندوانہ رسوم و رواج کا رنگ اسلامی مزاج پر غالب آنے لگا اور مقامی، خاندانی اور ہندوانہ تہذیب کے رسوم رواج کو اسلامی رنگ دے کر مسلمانوں کو لہو و لعب اور جشن و طرب کے راستے پہ لگا دیا۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سربراہ، وزراء اور اشرافیہ ان غیر اسلامی رسومات کو عین اسلامی سمجھ کر بڑے اہتمام اور جوش و خروش سے وقت، مال اور صلاحیتیں صرف کرتے ہیں جن کا اصل اسلام اور حب رسول سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔
عید میلاد بارہ ربیع الاوّل کا قرآن و حدیث سے کوئی ثبوت ملتا ہے نہ ہی صحابہ کرام و ائمہ اربعہ سی۔ یہ خالص بدعت ہی۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ 12 ربیع الاول کو حضور اکرم کی تاریخ پیدائش کے بارے میں اختلافِ رائے پایا جاتا ہے۔ کسی کے نزدیک سات ہے اور کسی کے نزدیک بارہ اور کسی کے خیال میں تاریخ پیدائش نو ربیع الاوّل ہے، مگر یہ اختلاف رائے صرف تاریخ پیدائش کے حوالے سے ہی، تاریخ وفات کے بارے میں سب کا اتفاق ہے کہ وہ بارہ ربیع الاوّل ہی ہی۔ اے عاشقانِ رسول! اے جشن منانے والو! چراغاں کرنے والو! کیوں یاد نہیں کرتے کہ اس روز مدینہ میں عاشقانِ رسول کے دلوں پہ کیا گزر رہی تھی؟ کس طرح دل پارہ پارہ ہوئے جاتے تھے؟
ذرا ٹھہرئیے! دل تھام کے تصور کیجیے! کوئی وحی کا سلسلہ ختم ہونے پہ اشک بار اور غم زدہ ہے، کوئی حضور کے دیدار سے محرومی پہ غش کھا رہا ہے، مگر پھر بھی نہ حضور کی وفات پہ کسی نے قل کیے نہ تیجا، نہ جمعراتوں کا سلسلہ، نہ چالیسواں اور نہ زردے کی دیگیں۔ عقیدت اور محبت کے لافانی جذبوں سے سر شار ہونے کے باوجود بدعات سے بچے رہے۔
جب مکہ مکرمہ کے نہایت معزز خاندان کے معزز گھرانے کی قابل قدر بہو، نیک فطرت خاتون حضرت آمنہ بنت وہب کے ہاں دنیا کا سب سے عظیم انسان پیدا ہوا تو سارے خاندان میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ چچا ابو لہب نے خوشخبری سنانے والی لونڈی کو آزاد کر دیا۔ دادا نے دعوت طعام دی۔ چچا ابوطالب نے ساری زندگی برے بھلے وقت میں ساتھ دیا۔ شعب ابی طالب میں سختیاں ہیں۔ مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ ابو لہب کا انجام کیا ہوا؟ جب تک وہ چچا کی حیثیت سے رہا تو ٹھیک تھا لیکن جب وہی پیارا محترم عزیز بھتیجا رسول اللہ کی حیثیت سے سامنے آیا تو چچا دشمن بن گیا، ابوطالب نے پیغامِ الٰہی اور توحید الٰہی کو نہ مانا جس کی وجہ سے محبت، شفقت، پیار اور مشکل حالات میں تعاون بھی ان کے لیے آخرت میں نجات کا ذریعہ نہ بنے گا۔
اللہ تعالیٰ کے مبعوث کردہ نبی جب تک محمد ابن عبداللہ کی حیثیت سے مکہ مکرمہ میں زندگی بسر کرتے رہے تو وہ اپنے باپ، دادا، چچا، خاندان کے حوالے سے پہچانے جاتے تھی۔ مگر جب بحیثیت رسول اللہ کے معاشرے میں جلوہ گر ہوئے تو شناخت اور پہچان کے سارے سلسلے بدل گئی۔ اب حضرت آمنہ ایک نبی کی والدہ تھیں، خدیجہ ایک معزز و کامیاب انسان صادق و امین ہی کی بیوی نہیں بلکہ ایک نبی کی شریکِ حیات تھیں۔ حضرت ابوبکر صدیق ایک مخلص، پیاری، جگری دوست ہی نہ تھے ایک نبی کی تعلیم پہ آمنا و صدقنا کہنے والے صدیقِ اکبر تھے۔ غلام محض غلام نہ رہے بلکہ وہ بھی خاتم النبییّن کے قریبی ساتھی تھے۔ قربت و محبت کے سارے پیمانے آن کی آن میں بدل کر رہ گئے۔
غور کرنے کا مقام ہے کہ پیدائش کے دن سے لے کر پہلی وحی آنے کے درمیان چالیس سال میں جو کچھ حالات و واقعات ظہور پذیر ہوتے رہے وہ معاشرے کے سب سے بہتر، معزز، محبوب اور قابل احترام شخصیت کے حوالے سے خاندان کے لیے عزت و توقیر کا باعث رہے۔ صادق و امین کہلانے والے، دلوں میں بسنے والے شخص کو صرف ایک کلمے نے کیسے اجنبی کر دیا، معاشرے میں ایک کلمے نے رشتے اور حسب و نسب کے اونچے مینار زمین بوس کر دیے اور مسکینوں و غلاموں کو عزت کا تاج پہنا دیا۔
یومِ پیدائش منانے کے لیے بہت جوش و جذبے کا اظہار کیا جاتا ہے، حالانکہ محبت و عقیدت کا پیمانہ، خوشی کا زمانہ تو اس دن سے ناپا جاتا ہے جب محمد ابن عبداللہ، رسول اللہ کہلائے، جس دن نزول قرآن، پہلی وحی کے ذریعے محمد ابن عبداللہ کو رسول اللہ، خاتم النبییّن اور سیدالانبیاء کا اعزاز اللہ تعالیٰ نے بخشا تھا۔ خوشی منانے کا دن ہمارے لیے تو وہ ہے جس دن اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب پہ قرآن اتارا۔ خود اللہ تعالیٰ نے اس خوشی کا ذکر فرمایا:
’’لوگو! تمھارے پاس تمھارے رب کی طرف سے نصیحت آ گئی ہی۔ یہ وہ چیز ہے جو دلوں کے امراض کی شفا ہے جو اسے قبول کر لیں ان کے لیے راہنمائی اور رحمت ہی۔ اے نبی! ان لوگوں سے کہو کہ یہ اللہ کا فضل اور اس کی مہربانی ہے کہ یہ رحمت اس نے بھیجی۔ اسی نزول رحمت (قرآن) پر تو لوگوں کو خوشی منانی چاہیے، یہ ان سب چیزوں سے بہتر ہے جنھیں لوگ سمیٹ رہے ہیں۔‘‘
(یونس0: 58-57)
اس دن کو منانے کا طریقہ اور موقع اللہ تعالیٰ نے خود رمضان المبارک اور شب قدر کی صورت میں واضح فرما دیا ہی۔
سوچیی! غور و فکر کیجیی! کیا محبت کا انداز یہی ہے جو ہم نے اپنا رکھا ہے۔
فلمی گانوں کی طرز پہ نعتیں اور سجی سنوری لڑکیوں اور، خواتین کی نعتیہ مقابلوں کی سریلی آوازیں، نعتوں میں عالیانہ انداز میں جسمانی نقوش اور رنگ و روپ کا تذکرہ، شرک کی حدوں کو چھوتے ہوئے اشعارو قوالیاں اور مضحکہ خیز انداز میں قوالیاں گاتے ادب و احترام سے ناواقف، چیختے چلاتے قوال۔
کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ بحیثیت والدین، استاد، سربراہِ مملکت ہم اپنے ماتحتوں سے خالی خولی دعوے اور باتیں سن کر اپنے اپنے دائرہ کار میں کما حقہ کام اور ذمہ داریاں ادا کر سکتے ہیں؟؟ اولاد اپنی باتوں سی، خالی تعریفوں سے والدین کو خوش کرے اور اٹھ کر پانی کا گلاس تک نہ دی، شاگرد سبق یاد نہ کری، عوام حکومت کو ٹیکس نہ دی، ادارے کے ارکان صرف اپنے ادارے کے سربراہ کی شان میں قصیدے پڑھیں اور کوئی کام کر کے نہ دیں۔ کیا اس طرح دنیا میں عزت مل سکتی ہے؟ کیا عمارتوں کا چراغاں آخرت کے اندھیروں میں روشنی لا سکتا ہے؟
محبت کے دعوے کرنے والے بے عمل مسلمان جب تک بھولا ہوا سبق یاد نہیں کریں گے تو اوج ثریا تک کیسے پہنچیں گے؟
نبی سے محبت کا پیمانہ تو یہ ہے کہ اپنے والدین، اولاد، جان مال سے بھی بڑھ کر محبت ہو، ادب و احترام ہو، نبی کی شخصیت صرف دنیاوی حسن اور دنیاوی پیمانوں میں نہیں ناپی جاتی۔ دنیا کے مال، ظاہری شان و شوکت کے مظاہرے کس کام کے ؟ جبکہ سنتِ رسول پہ عمل نایاب ہے۔
#نبی کے مناقب و فضائل،مدح و نعت، طور و طریق، سنت و سوانح کا بیان کرنا بہت مستحسن ہے لیکن اس کے لیے خاص مجالس کا، خاص ہیئت، خاص لباس، خاص انداز، مخصوص اوقات میں محافل کا انعقاد، مخصوص کھانوں کی تیاری، بدعت ہے۔ خصوصاً محافل میلاد کے مخصوص انداز جو ہندوانہ تہذیب کی عکاسی کرتے ہیں۔ شمع جلانا، عطر چھڑکنا، بھجن کی طرز پہ مخصوص نعتیں گانوں کی طرز پہ گانا، حضور کی آمد کا اعلان کرنا اور ان کو موجود تصور کر کے کھڑے ہونا ، سب بدعتوں کا مجموعہ ہے۔ ہر خطبۂ جمعہ میں بدعت کے بارے میں سنا اور سنایا جاتا ہے کہ ہر بدعت آگ کی طرف لے جاتی ہے۔
ان سب طریقوں میں اگر بالفرض کوئی کام جائز بھی ہو تو یہ مسئلہ متفق علیہ ہے کہ اگر کوئی جائز کام بھی ہو لیکن جب لوگ اس کام کو سنت یا فرض کی طرح سمجھنے لگیں اور لوگ عقیدہ باطل کی طرف پلٹنے ، خلاف شریعت کاموں کی طرف مائل ہونے لگیں تو اس روش کو ترک کر دینا چاہیے۔ غیرقوموں کی مشابہت میں مجالس، لباس، انداز و اطوار اختیار کرنا کہ مسلم قوم اور کافر کا فرق معلوم نہ ہو سکے، ممنوع ہے۔ نفس انسان کو سطحی اور آسان اعمال کی طرف مائل کرتا ہے۔ یہ حقیقت ہے ’’محبت’’ کے بغیر اطاعت نہیں ہو سکتی۔ حضور کی محبت کو عام انسانوں کے ساتھ محبت جیسا نہیں سمجھنا چاہیے، نفس نے محبت کے اظہار میں غلو کیا اور محض زبانی کلامی محبت کے دعووں اور اظہار میں شدت اختیار کر لی۔ شیطانی اکساہٹ نے اس کو مزید ہوا دی اور عمل کے میدان سے بھگا دیا۔ عمل کے میدان کے ارد گرد ظاہری اور سطحی افکار و اعمال کی ایسی باڑھ لگا دی کہ میدان دکھائی تک نہیں دیتا۔
آئیے! ہم اپنے دلوں میں جھانک کر دیکھیں کہ خاتم النبییّن کی محبت کے کون سے نقوش اور کیسے چراغ روشن ہیں؟ اور ان بجھے چراغوں کو تقویٰ کے تیل سے روشن کیسے کرنا ہے؟
سب سے پہلے تو گزشتہ خطاٶں، کوتاہیوں، لغزشوں اور گستاخیوں پہ استغفار کرنا فرض ہے۔ یہ پہلا چراغ ہے جس سے اگلے سارے چراغ ایک ایک کر کے روشن ہوتے جائیں گے۔
کثرت سے درود شریف پڑھنا، سنت نبوی، سیرت نبوی، احادیث کا زیادہ سے زیادہ مطالعہ کرنا، دور نبوت کو کامل یکسوئی سے پڑھنا، غور کرنا، اس کی روشنی میں اپنے مسائل کا حل تلاش کرنا۔
روزانہ کم از کم مزید ایک سنت کو اختیار کرنا اور دوسروں کو یاد دلانا۔
ایسی دینی و علمی مجالس میں شرکت کرنا جہاں قرآن و حدیث کی صحیح تعلیم دی جاتی ہو۔ احادیث صحیحہ و ضعیفہ کا فرق یاد رکھنا۔
کم از کم چالیس احادیث کا حفظ کرنا، ان پر عمل اور پھر مداومت اختیار کرنے کی مشق کرنا۔
غیر اسلامی رسوم کو چھوڑنا، غیر قوموں سے مشابہت اختیار نہ کرنا۔
باہمی ملاقاتوں میں سیرت نبوی و سیرت صحابہ کا تذکرہ کرنا، صحابہ و صحابیات کی حضور سے محبت اور عمل میں مسابقت کو یاد کرنا، دوسروں کو یاد کرانا۔
اپنے عمل کو حسن نیت سے آراستہ رکھنے کے لیے اپنے اعمال کی اور افکار کی نگرانی کرنا، اپنا محاسبہ خود کرنا۔
ہر عمل کی قبولیت کا یقین رکھنا، لیکن دل کو عاجزی سے بے نیاز نہ کرنا۔
حلقہ احباب اور خاندان میں سیرت رسول کو موضوع گفتگو بنانا، سیرت پہ عمل کرنے والے لوگوں کی مثال دینا۔
صحابہ و صحابیات کی اپنے رسول سے محبت کے واقعات کو بار بار دہرانا اور ان کے اعمال اور ان کے درجات پہ رشک کرنا چاہیی۔ اور اپنے لیے دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اس دن کامیاب لوگوں میں شامل کر دے کہ جب اللہ تعالیٰ فرمائے گا:
’’یہ وہ دن ہے جس میں سچوں کو ان کی سچائی نفع دیتی ہی۔ ان کے لیے ایسے باغ ہیں۔ جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں۔ یہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ، حقیقت میں یہی بڑی کامیابی ہے۔ ‘‘
(سورۃ المائدہ: 119)
اللہ تعالیٰ سب مسلمانوں کو بحیثیت ایک امت کے حقیقی فلاح سے ہمکنار کر دے اور صحابہ و صحابیات کی طرز پہ افراط و تفریط سے پاک حبّ رسول عطا فرمائے۔ آمین