جدہ کے ساحل سمندر کی پر رونق فضا ایک دم خاموش اور اداس سی ہو گئی تھی۔ نہ جانے وہ کیسے جاںکَسُل لمحات تھے جو روح کی گہرائیوں میں پیوست ہو گئے اور سارے منظر بدل گئے۔ احساسات کی جون بدل گئی۔ رخصت ہوتے سورج کی کرنیں جو ہمیشہ ایک خاص تاثر دیتی ہیں، آج سوز و گداز اور کسی اندرونی، لاشعوری کرب کی کیفیت پیدا کر رہی تھیں۔ سورج دن بھر کا سفر ختم کر کے دوسری دنیا میں جانے کو تیار تھا۔ ڈوبتے سورج کا یہ منظر دل دہلا رہا تھا۔ دیکھتے دیکھتے وہ سونے کا تھال بن کر سمندر کے کنارے پر ٹک گیا اور لڑھکنیاں کھاتا سمندر کی گہرائیوں میں ڈوب گیا۔ یہ منظر مجھے ہمیشہ اچھا لگتا تھا مگر آج جسم اور جان کی تمام حسیات سکتے میں آ گئیں۔ آفتاب کے پانی میں گم ہو جانے سے، اک نئی دنیا میں چلے جانے سے میرا دل یکبارگی انجانے خوف اور ان دیکھے احساسِ غم کی لپیٹ میں آ گیا۔ میرے اردگرد ساؤنڈ پروف، دیوار کھڑی ہو گئی۔ اردگرد کی آوازیں بچوں کا غل، سڑک پر رواں دواں گاڑیوں کا شور اور سمندر کی پرسکون ہلکی ہلکی آواز پسِ دیوار چلی گئی۔ماحول پر کس قدر اداسی چھا گئی تھی!
چاروں طرف پھیلتا اندھیرا اور مدھم روشنیاں عجیب سا تاثر دے رہی تھیں۔ دل کسی ایسے گوشے کی تلاش کرنے لگا، جہاں میں پھوٹ پھوٹ کر رو سکوں۔ کوئی ایسا کونا جہاں مجھ سے رونے کا سبب پوچھنے والا کوئی نہ ہو۔ لاشعور میں خطرے کی ایک گھنٹی بج رہی تھی۔ ہر آواز حتیٰ کہ ہوا کی سرسراہٹ بھی سسکیاں لیتی محسوس ہو رہی تھی اور غم کی یہ چادر میرے وجود پر لٹپتی چلی گئی۔
’’شاہد بھائی اپنے رب کے پاس چلے گئے۔‘‘
یہ خبر اگلے ہی روز درد کی ایک شدید لہر بن کر رگ و پے میں اتر گئی۔ روح مرغ بسمل کی طرح تڑپنے لگی……..بھائی! پیارا بھائی، مصباح الاسلام شاہد………وہ آفتاب جو میں نے دوسری دنیا میں جاتے دیکھا، وہ میرے بھائی کی زندگی کا بھی آخری سورج تھا۔ وہ آفتاب بھی ڈوب گیا جو میرے گھر میں جگمگاتا تھا۔
’’بے شک ہم اللہ ہی کے ہیں اور اسی کی طرف ہم سب کو واپس جانا ہے۔‘‘ سوز و غم اپنی جگہ، روح کی تڑپ بجا، مگر اے اللہ! ہم تجھ سے شکوہ نہیں کرتے، تیرا مال تھا، تو نے لے لیا۔ ہم سب تیری طرف لوٹ کر آنے والے ہیں……. اے اللہ! ہم تجھ سے شکوہ نہیں کرتے، صبر کی التجا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ بندوں کو آزمائش میں ڈالتا ہے، تو حوصلہ بھی عطا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خونی رشتوں میں ایسا ناطہ رکھا ہے کہ دور ہو جانے کے باوجود قربتوں کا احساس رہتا ہے اور خوشی، غمی خصوصاً غم میں روحیں بے قرار ہو جاتی ہیں۔ بھائی جان کے دنیا سے رخصت ہونے کا وقت بعینہ وہی تھا جب میرے وجود میں اداسی و غم کی برسات اتری، میری روح زخمی ہوئی اور غم کی ان چھوئی رِدا مجھ پر تن گئی۔
بھائی جان کی یادیں ہمارے کرب میں جوار بھاٹے کی کیفیت پیدا کر دیتی تھیں۔ اس شخص کے صبر کا اندازہ کون کر سکتا ہے جو نہ کھا سکتا ہو نہ پی سکتا ہو، جس نے بہت عرصہ مصنوعی غذا کی نالی سے سیال غذا پر گزارا کیا ہو؟
بھائی جان کا صبر ایک روشن مثال بن گیا ہے۔ تکلیف میں ہر وقت کلمہ شکر ان کی زبان پر رہتا تھا۔ اپنے غیر سبھی ان کی شرافت، صبر اور نیکی کے مداح تھے۔ وہ بھائی جس نے کسی کا دل دکھانے کا تصور بھی نہ کیا، دوسروں کے کام آنے والا، اپنے کام چھوڑ کر دوسروں کی ضرورت پوری کرنے والا، نہ صلے کی تمنا، نہ ستائش کی پروا اور ایثار ایسا کہ اپنا حق چھوڑ کر خوشی محسوس کرنا۔ اس فریبی دنیا میں بھلا اتنے اچھے انسان کا کیا کام! راتوں کو عبادت کرنے میں ایسا باہمت کہ جس پہرا اٹھ کر دیکھو عبادت میں مشغول اور جائے نماز پر مناجات میں مصروف۔ شدت کی تکلیف ہے تب بھی اللہ کی نعمتوں اور اس کے احسانات کا تذکرہ کثرت سے کرنا۔ اس صابر وشا کر بندے کو اللہ تعالیٰ نے جلد ہی اپنے پاس بلا لیا۔
شاہد بھائی کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا تھے۔ غذا کی نالی میں تکلیف ہونے کی بناء پر خوراک فطری طریقے سے کھا پی نہ سکتے تھے۔ غذا کی کمی سے جسم نحیف تھا، مگر ایمان کی طاقت سے چہرہ ہمیشہ پررونق رہتا۔ معلوم نہ ہوتا تھا کہ مستقل مریض ہیں۔ پورے ایک سال کے بعد ان سے ملاقات ہوتی تھی۔ ذہن میں بہت سے الفاظ ترتیب دیتی کہ پاکستان جا کر ان کی صحت کے متعلق دریافت کروں گی اور یوں تسلی دوں گی……..عیادت کے لیے الفاظ منتخب کرتی، مگر ان سے مل کر کبھی محسوس نہ ہوتا تھا کہ وہ ہماری طرف سے یا کسی کی طرف سے ہمدردی کے منتظر ہیں۔ بیماری انسان کو زُود حِسّ بنا دیتی ہے، وہ اپنی بیماری کا تذکرہ کرتا رہتا ہے اور اپنی کمزور صحت اور نقاہت کا اشتہار بن جاتا ہے، مگر میرے پیارے بھائی کی بہت سی خوبیوں میں سے ایک یہ بھی تھی کہ اپنی بیماری اور تکلیف کو کبھی دوسروں کے لیے دردِ سر نہیں بنایا۔ اپنے کام حتی الامکان خود کرتے، دوسروں سے پورا پورا تعاون کرتے اور والدہ محترمہ کی بیٹیوں کی طرح مدد کرتے۔
ہم شادی شدہ چاروں بہنیں جمع ہوتیں تو بے حد خوش ہوتے۔ بچوں کی فرمائشیں پوری کرتے اور اپنے ہاتھوں چیزیں بنا کر دیتے۔ بچوں کے دودھ، فیڈر وغیرہ کا خود دھیان رکھتے۔ جب ہم بچوں کو شور و غل سے منع کرتے تو ناراض ہوتے اور کہتے’’یہی تو عمر ہے شور وغل کر کے کھیلنے کی۔‘‘ میری بیٹی نویرہ رحمن کلاس میں اول آئی تو مٹھائی منگوا کر سب کو کھلائی۔
بھائی جان کی ہر خوبی ایک نرالی ادا رکھتی تھی۔ ہر وقت انہیں بے قراری کی حد تک یہ احساس رہتا تھا کہ کہیں کسی کا دل نہ دکھ جائے، کسی کو تکلیف نہ ہو۔ بچوں سے بھی ہر وقت معذرت طلب کرتے رہتے تھے۔ نہ جانے ان کے جسم میں دل کی جگہ کونسی پاکیزہ اور روشن شے دھڑکتی تھی۔ بچپن میں اپنے ہم جولیوں سے حیرت انگیز طور پر منفرد، جوانی ناقابلِ یقین حد تک تقویٰ اور تعلق باللہ سے مزین اور وہ اسی جوانی کی عمر میں اپنے رب کے حضور حاضر ہو گئے۔ عمر کے ابھی ۲۳ سال پورے نہیں ہوئے تھے مگر تقویٰ کی منزلیں بزرگوں سے بڑھ کر طے کر لی تھیں۔
بھائی جان کی وفات ایسا ناقابلِ بیان صدمہ تھا جسے ایک وہ بہن ہی سمجھ سکتی ہے جو پردیس میں ہو اور اپنے بھائی کا آخری دیدار نہ کر سکی ہو۔ چھوٹی بہن شاہدہ کوثر جو مدینہ منورہ سے جدہ آئی ہوئی تھی، ان تک یہ خبر پہنچانا بھی تکلیف دہ مرحلہ تھا۔ اللہ کے کاموں میں کون دخل دے سکتا ہے، اس کے حکم سے سرتابی کس کی مجال ہے؟ کوثر نے بھی کمال صبر سے اس جان لیوا خبر کو سنا، مگر دلوں میں جیسے ایک کانٹے دار شاخ چبھ گئی جس سے زخموں میں ہر دم اضافہ ہی ہوتا رہتا ہے۔
ہم دونوں بہنیں اپنے بھائی کی باتیں کرتی ہیں۔ خوابوں میں بھائی سے ملاقات ہوتی تو اس کا تذکرہ کرتی ہیں، اپنے والدین کے غم پر مزید دکھی ہوتی ہیں اور ایک دوسرے کو تسلی و تشفی دے کر ایک دوسرے کو بہلاتی ہیں۔ دل کو کبھی قرار آ جاتا ہے کبھی مزید مچل جاتا ہے۔
ایک دن میں مدینہ منورہ میں مسجد نبویﷺ کے ریاض الجنۃ میں ستون سے لگی اپنے بھائی کی مغفرت کے لیے دعا کر رہی تھی۔ دل تڑپ تڑپ کر سینے سے نکلنے کو بے تاب تھا۔ بھائی جان کی باتیں، ان کی یادیں، ان کی بیماری، والدین کے غم کا احساس برچھی بن کر سینے میں اتر رہا تھا۔ کبھی کبھار انسان کتنا بے بس ہو جاتا ہے۔ اپنوں کی یاد اسے دنیا و مافیہا سے بے نیاز کر دیتی ہے۔ اس وقت غم کی جو چادر ساحل سمندر پر میرے وجود پر لپٹی تھی کس قدر موٹی ہو گئی۔ میرا وجود اس کے اندر چھپ گیا۔ میں مسجد نبویﷺ میں بھائی جان کے ساتھ کئی بار آئی تھی جب وہ ایک سال کے لیے سعودی عرب آئے تھے۔ مجھے ہر ستون، ہر کونے اور ہر جگہ ان کا ہیولا سا نظر آتا۔ ہر آدمی ان کی شبیہ لیے گزرتا۔ کسی کی چال ویسی ہوتی، کسی کا جسم، کسی کی شکل مگر بھائی جان کہاں؟ وہ تو منوں مٹی اوڑھ کر دنیا کی تکلیفوں سے دامن بچا کر سکون کی نیند سو گئے ہیں……… یہ تصور میرے دل و دماغ ہلا دیتا ہے کہ بھائی جان کی صورت میں اب کوئی شخص دنیا میں نہیں رہا۔
بھائی کے وجود کے ساتھ قبرستان کا تصور سوہان روح تھا۔ میرا دل آنسوؤں کے ذریعے بہتا جا رہا تھا۔ آنسو زخم دل کو مزید گہرا کر رہے تھے۔ صبر و قرار کی دولت لٹ رہی تھی۔ میں غم سے نڈھال ستون سے لگی تھی۔ یکایک ایک لہر سی اٹھی اور اچانک ہی کوندا سا لپکا، احساسات نے ایک نیا رخ اختیار کر لیا۔ زمان و مکان لا محدود ہو گئے۔ جیسے جذبوں کو ایجاب مل گیا ہو، وقت تھم گیا ہو۔ دل کی دھڑکنوں میں ایک نیا احساس زندہ ہونے لگا۔ مدینے کی وہ اداس فضا میرے احساسات پر محیط ہو گئی۔
حضرت عائشہ (رض) کے حجرے سے کدالوں کی آوازیں آ رہی تھیں۔ کدال کی ہر آواز حضورﷺ کے جانثاروں کے دل پر پڑتی تھی۔ اسی کدال کی ہر ضرب میرے ناتواں دل پر پڑنے لگی۔ سکتے کی وہ کیفیت ہوئی کہ نہ آنکھ جھپکی جائے نہ سانس لیا جائے۔ میرے تصور میں غم سے نڈھال حضرت فاطمہ (رض) کا سراپا اُبھرا۔ ’’تم لوگوں نے کیسے گوارا کر لیا کہ میرے باپ کے جسم کو مٹی میں سلا دیا۔‘‘
پیاری بیٹی کا اپنے بے مثال باپﷺکے لیے یہ کرب کوئی انوکھی بات تو نہ تھی۔
’’فداک امی و ابی یا رسول اللہﷺ !……. میں دل کے نہاں خانوں سے پکار اٹھی۔ حضورﷺسے محبت تمام رشتوں، ماں، باپ، بھائی، بہن، اپنی جان سے بھی بڑھ کر ہے اور حضورﷺ کی جدائی کا غم سب سے بڑا غم……..اس سے بڑا غم بھی کوئی ہو سکتا ہے؟ جانثار صحابہ (رض) و صحابیات (رض) نے اتنے بڑے کرب کو کیسے برداشت کیا ہو گا؟ بس رب کی رضا جان کر سہار لیا ہو گا۔ پھر بھی کیسی ہراساں نظریں ایک دوسرے کو تکتی ہوں گی………وہی ماحول میرے احساسات پر غالب آتا چلا گیا۔ حضرت عمر (رض) مرنے مارنے پر تلے ہیں۔ حضرت ابوبکر صدیق (رض) صبر و رضا کی تصویر بنے سب کو تسلیاں دے رہے ہیں۔ وہ سدا سے صدیق اکبر ہی رہے کہ حقیقتوں کا ادراک ان کی گھٹی میں پڑا تھا۔ دل کی دنیا تہ وبالا تھی مگر فرمان خداوندی سنا رہے ہیں۔ مدینہ میں کیا کہرام مچا ہو گا، دلوں پہ کیا قیامت ٹوٹی ہو گی………میرا دل ناتواں بھی محبتوں کی جوت جگائے ان جانثاروں کے غم میں شریک ہو گیا۔ دل مرغ بسمل کی طرح تڑپنے لگا، آنسوؤں کا ایک نیا آبشار چل نکلا، آہوں کی ایک نئی روداد شروع ہو گئی۔ حُب رسولﷺسے چمکتے آنسو دل کی نگری میں روشنی کرنے لگے گویا کہ زخمی دل پہ مرہم رکھا جا رہا ہو۔ یوں محسوس ہونے لگا کہ اپنے محبوب آقاﷺکی یاد کا درد سکون بخش رہا ہے۔ اس گریہ سے وہ تسکین مل رہی ہے جو عبادت میں ملتی ہے۔ یقینا بعض غم نشاط انگیز ہوتے ہیں……….بھائی کی یاد میں بہنے والے آنسوؤں کا ہر قطرہ دل کے گھاؤ مزید گہرے کر رہا تھا، مگریہ آنسو زخمی اور گھائل روح کو مرہم بھی عطا کر رہے تھے۔یہ بھی گریہ محبت تھا، جدائی کا غم تھا مگر نشاط انگیز تھا۔ یوں ردائے کرب و غم کو صبر و قرار کی نرم ملائم کشادہ عبا نے چھپا لیا۔