’’بچوں کی تربیت‘‘
بزرگ والدین کا کردار
بچوں کی تربیت کے حوالے سے جب بات ہوتی ہے تو عموماً والدین پر آ کر ختم ہو جاتی ہے، جب کہ ان کی تربیت میں دوسرے رشتے داروں کا بھی کچھ نہ کچھ حصہ ہوتا ہے۔ یہ حصہ یہ رشتہ دار غیر شعوری طور پر ادا کرتے ہیں۔ دادا دادی اور نانا نانی کا اپنا ایک کردار ہوتا ہے۔ انہیں ہم بزرگ والدین کہہ سکتے ہیں۔ یہ تربیت میں اپنے حالات کے لحاظ سے کچھ نہ کچھ کردار ضرور ادا کرتے ہیں، لیکن اس کی ضرورت ہے کہ یہ کردار شعوری طور پر ادا کیا جائے اور بزرگ والدین اس باب میں اپنی ذمہ داری کو محسوس کریں کہ اپنے بچوں کی تربیت اور پرورش کے بعد اب انہیں اپنے بچوں کے بچوں کی بھی تربیت میں حصہ لینا ہے۔
ان بنیادی رشتوں کا کیا کردار ہو؟ موجودہ طرز معاشرت اور ترجیحات کی تبدیلی نے ان کا کرادر وقت کے ساتھ ساتھ بہت کچھ کمزور کر دیا ہے۔ ان رجحانات کو ساتھ لے کر چلتے ہوئے، بزرگ والدین، کا کردار متعین کرنے کی ضرورت ہے۔ اگرچہ اسلامی تہذیب میں یہ رشتے، شجر سایہ دار، کی حیثیت سے مستحکم و مضبوط مقام رکھتے ہیں۔ اسی مقام کی پاسداری ہمارا مطمح نظر ہے۔ بچے جنت کے پھول، گھر کی رونق اور زندگی میں رعنائیوں کے پیام بر ہوتے ہیں۔ والدین کے لیے ان کے قہقہے، معصوم باتیں، سکون اور اطمینان کا باعث بنتے ہیں، جب کہ دادا دادی، نانا نانی کے لیے ان کا والہانہ تعلق ماضی کی حسین یادوں سے وابستہ رکھنے کا سبب بنتا ہے۔
اگر کوئی شعیب آئے میسر
شبانی سے کلیمی دو قدم ہے
اس کے مصداق، مستقبل کے والدین، کہلانے والے ان بچوں کو مناسب تربیت اور توجہ مل جائے تو تعمیر ملت کا سامان کر کے نئی تاریخ رقم کرتے ہیں۔ بصورتِ دیگر یہی بچے، خاندان اور ملک و ملت کے لئے کلنک کا ٹیکہ بن جاتے ہیں۔
آج سے کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے جب فارغ اوقات میں اور بالخصوص شام کے سائے پھیلتے ہی بچے آج کے برعکس ٹیلی ویژن، کیبل یا انٹر نیٹ سے دل بہلانے کے بجائے دادا دادی، نانا نانی کے پاس جمع ہو جاتے اور ان سے پرستان کی پریوں اور کوہ قاف کی حیرت انگیز شہزادیوں کے بارے میں کہانیاں سنا کرتے تھے جن کا اختتام ہمیشہ کسی اخلاقی قدر سے وابستہ ہوتا تھا۔ الف لیلیٰ، راجا رانی، ٹارزن، عمر و عیار، حاتم طائی کی کہانیاں بچوں کو کچھ نہ کچھ سبق دے کر ہی ختم ہوتیں۔ اسی طرح تاریخِ اسلام کے سچے واقعات، صحابہ و صحابیات رضوان اللہ علیہم کی روشن مثالیں دے کر بچوں کو نیک اور صالح فطرت سے قریب تر رکھا جاتا۔ غرض، ہر گھر میں اپنی علمی استعداد کے مطابق اور ماحول کے پیش نظر بچوں سے ذہنی، قلبی اور جسمانی قرب و تعلق بزرگوں کے ساتھ قائم رہتا تھا۔ دین دار گھرانوں میں نماز، چھوٹی سورتیں، دعائیں یاد کروانا انہی بزرگ والدین، کا کام ہوتا تھا۔ لیکن آج یہ سب کچھ ایک خواب بن چکا ہے۔ غربت، جہالت، بے شمار مصروفیات اور مشینی زندگی نے ہماری معاشرتی اور سماجی زندگی کے حسن کو گہنا دیا ہے۔ بزرگ والدین کی حکیمانہ باتیں اور دادی، نانی کی لوریاں پس پردہ چلی گئی ہیں۔ ٹی وی ، انٹرنیٹ اور کیبل کی آمد نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی ہے۔
بزرگ والدین، تنہائی کا شکار ہیں۔ معمولاتِ زندگی سے عملی طور پر معطل ہو جانے کا احساس ان کو نفسیاتی و جسمانی عوارض میں مبتلا کر رہا ہے۔ بچوں کے والدین دن بھر گھر سے باہر رہنے کے بعد تھکے ہارے گھروں کو لوٹتے ہیں تو وہ بھی انٹرنیٹ اور کیبل میں راحت کا سامان تلاش کرتے ہیں، یا پھر دیگر سرگرمیاں یا ذمہ داریاں ان کو گھریلو ماحول سے دور رکھتی ہیں۔ بچوں پہ ہوم ورک، ٹیوشن، نصابی کتب کا بوجھ اس قدر زیادہ ہوتا ہے کہ وہ گھر کے افراد میں مل جل کر بیٹھنے اور کچھ کہنے سننے کی حسرت دل میں لیے سو جاتے ہیں اور موجودہ دور کا المیہ یک تلخ حقیقت بن کر سامنے آ رہا ہے کہ والدین اور اولاد میں خلیج تیزی سے وسیع ہو تی جا رہی ہے۔ ﴿اس میں والدین کا، بزرگ والدین، کے ساتھ اور بچوں کا اپنے والدین کے ساتھ﴾ ترجیحات کے تعین، حالات و ماحول اور ذمہ داریوں کے بوجھ کو دیکھا جائے تو والدین کی حالت قابلِ رحم نظر آنے لگتی ہے۔ ﴿قطع نظر اس کے کہ یہ سب کچھ ان کا خود ساختہ ہے یا یہ حقیقت میں ذمہ داریوں کا بوجھ ہے﴾۔ بہر حال ان حالات میں اپنی معاشرتی اور سماجی زندگی کے رکھ رکھاؤ اور اخلاقی اقدار کی عمارت کو قائم رکھنا ہی ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے۔
بزرگ والدین، ﴿دادا دادی، نانا نانی﴾ بننے سے پہلے ایک اہم مرحلہ اور بنیادی رشتہ قانونی والدین ﴿ساس، سسر﴾ کا ہے۔ قانون ایسی پابندی ہے جسے انسان سزا یا نقصان کے خوف سے نبھاتا ہے یا پھر محبت سے ﴿محبت سے اسی صورت میں، جب کہ انسان کو ہر پہلو سے اس میں مفاد اور خیر نظر آتا ہو﴾ قانونی رشتے بھی اسی اصول کے تحت جڑے رہتے ہیں ورنہ وہ ٹوٹ جاتے ہیں۔ قانونی ﴿ in-law﴾ رشتے کا مغربی تصور انسانوں کو دلی محبت، لگاؤ، سمجھوتہ اور ایثار کرنے میں مانع ہے۔ بہت سے الفاظ، بہت سے معاملات، رشتوں کی چاشنی کا حقیقی حسن غارت کر دیتے ہیں۔ اردو زبان ان معاملات میں بہت خوب صورت پہلو رکھتی ہے۔ جہاںAunt,Uncle, Grand parents جیسے نامکمل اور بے اثر رشتوں کے بجائے ہر رشتے کی مکمل شخصیت کا ادراک، فہم اور قدر و منزلت کا بھرپور اظہار موجود ہے: دادا، دادی، نانا، نانی، تایا، چچا، پھوپھی، خالہ، ماموں۔ پھر اس کے ساتھ منجھلے، چھوٹے، بڑے کا سابقہ لاحقہ رشتے کو مزید پرتاثیر بنا دیتا ہے۔ اسی طرح سسرالی رشتوں کا تشخص دو خاندانوں کے باہم تعلقات کو نکھار دیتا ہے۔
وَھُوَ الَّذِیْ خَلَقَ مِنَ الْمَآءِ بِشَراً فَجَعَلَہ‘ نَسَباً وَّ صِھْراًo
اور وہی ہے جس نے پانی سے ایک بشر پیدا کیا، پھر اس سے نسب اور سسرال کے دو الگ سلسلے چلائے۔﴿الفرقان:۵۲:۴۵﴾
معاشرے میں سسرال﴿ساس، سسر﴾ کے درجے کو پہنچ جانا، خصوصاً کسی لڑکی کی ساس بننا ایک انتہائی اہم معاملہ ہے۔ یہ ایک ایسے دور کا آغاز ہے جہاں نفسیات بدل جاتی ہیں، توقعات بڑھ جاتی ہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں انسانوں کے اصل روپ، اُن کی انصاف پسندی، باطنی رویے اور اعلیٰ ظرفی کی پہچان ہوتی ہے۔ کسی لڑکی کے سسرال خصوصاً ساس نندوں کا کردار ہی یہ حقیقت متعین کرتا ہے کہ وہ بہو یا بھابی کے ساتھ کسی قسم کا سلوک و رویہ رکھ کر اسے کون سا مقام دے کر اپنی آئندہ نسل سے کس قسم کے تعلق کو پروان چڑھانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ وہ کھیتی جہاں سے اپنی فصل حاصل کرنا ہے اس کے ساتھ جذباتی، معاشرتی، سماجی، معاشی روابط کیسے ہیں؟ کیا کچھ لینے کی توقعات وابستہ ہیں اور دینے کے لیے بھی کچھ اخلاقی اقدار مدنظر ہیں یا نہیں؟ گھر کی بہو کو جو ماحول میسر ہے جن خوشگوار یا تلخ حالات کا وہ سامنا کرتی ہے اور جن مختلف طبیعتوں سے اسے نباہ کرنا پڑتا ہے اور جتنی عزت نفس کے ساتھ وہ اپنے بچے کی آبیاری کرتی ہے، بچہ ان سب اثرات کو لے کر دنیا میں آتا ہے۔ غرض بہو کو جو عزت، محبت، شفقت ملنی چاہئے وہ نہ دی جائے تو یہ رویہ اپنی آئندہ نسل پہ سراسر ظلم کرنا ہے۔ یہی وہ شجر ہے جس کی کوکھ سے نام و نسب وابستہ ہے۔ لڑکی کے والدین اور اس کے رشتہ داروں کی ہتک، تحقیر اور انہیں کم تر جاننے کا ہندوانہ احساس قابلِ گرفت ہے۔
اسی طرح ہمارے معاشرے میں داماد، تکبر، نخوت، ناز برداریاں اٹھوانے والا، بیوی کے پیارے رشتوں کو پامال کرنے والی عجیب و غریب شخصیت ہوتی ہے۔﴿اِلاّ ماشاء اللّٰہ﴾داماد کی حد درجہ اہمیت اور بہو کے بنیادی حقوق کی پامالی، یہ افراط و تفریط ہمارے معاشرے میں بہت سے مسائل کی جڑ ہے جس نے بے شمار گھرانوں کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔
مشترک خاندانی نظام ہو تو بیٹوں کی اولاد کے ساتھ روابط کا سلسلہ پہلے روز سے ہی براہ راست شروع ہو جاتا ہے۔ اسی طرح ایک شہر میں مگر علیحدہ گھر میں رہنے والی اولاد…….. دوسرے شہر میں مکین یا پھر بیرون ملک مقیم اولاد کے ساتھ، بزرگ والدین، اپنا تعلق اور ذمہ داریاں کیسے نبھائیں، یہ ہمارا اصل موضوع ہے۔
اولاد کہیں بھی مقیم ہو، دور بہت دور یا نزدیک بہرحال دل کے پاس ہمیشہ رہتی ہے اور رہنی بھی چاہئے۔ مگر محبت کا جب تک اظہار نہ ہو وہ ایک ایسی شے ہے جو ملفوف ہو۔ حجم اور قیمت میں کتنی ہی زیادہ ہو جب تک ظاہر نہ ہو، کسی کام کی نہیں۔ محبت کو چھپائے رکھنا اپنے پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کے ساتھ ظلم ہے۔
حضور اکرم ﷺنے بھی اظہار محبت کی تلقین کی ہے۔ لیکن آج کے مشینی دور میں، والدین اپنے بچوں کو بھرپور شفقت و محبت نہیں دے پاتے۔ دادا دادی اور نانا نانی کے پاس یہ فرصت کتنی مفید ہے کہ وہ اپنے بچوں کو جس انداز سے محبت نہ دے سکے اب وہ اس کمی کو اپنے بچوں کی اولاد کے ساتھ پوری کر سکتے ہیں۔
تربیت کے مختلف اسلوب:
محبت کے اظہار کے لئے آپ اپنی صواب دِید ﴿حالات، صحت، ماحول، فاصلے﴾ کے مطابق تدابیر متعین کر سکتے ہیں اور تعلق بڑھا سکتے ہیں۔
براہ راست تعلق:
اظہار محبت اور شفقت کے لئے براہ راست تعلق کی حسب دیل صورتیں ہو سکتی ہیں: سکول لانا اور لے جانا، ہوم ورک میں تھوڑی بہت مدد، بچوں کے دوستوں سے دل چسپی، سکول کے معمولات پہ خوش دلی سے بات چیت، شام کو ہلکی پھلکی تفریح، ہفتہ وار مجلس، کارکردگی پہ انعام﴿ چاہے معمولی ہی ہو﴾، بچوں کی باتوں کو توجہ سے سننا، حوصلہ افزائی، شاباشی دینا…… محبت و شفقت کی بنیاد ہیں۔
دوسرے شہر میں رہنے والے بچوں کے ساتھ فون کے ذریعے بات کرنا، کوئی دلچسپ بات جو بچے کو یاد رہے، گاہے بگاہے ان کو خطوط، ای میل، تصاویر بھیجنا، اور ان سے خصوصی طور پر خط اپنے ہاتھ کی ڈرائنگ، تصویر کا تقاضا کرنا، باہم دلوں کو قریب رکھنے کا باعث بنے گا۔ بچوں کے ارسال کردہ خطوط اور اشیا کو امانت سمجھ کر محفوظ رکھیں گے تو بڑے ہونے پر یہی چیزیں لازوال اور سچی خوشی کا باعث بنیں گی۔
تحفے تحائف دینا:
یہ ایک عظیم الشان عمل ہے جس سے محبتیں پروان چڑھتی ہیں۔ اگر بچے کو لازمی ضرورت کی چیز خرید کر تحفہ میں دی جائے تو سونے پہ سہاگہ ہے، خصوصاً وہ چیز جو بچے کے والدین خرید کر دینے کی استعداد نہ رکھتے ہوں۔ بچوں کے ہاتھ میں رقم دینے کے بجائے سکول/کالج کی لازمی ضرورت کی چیز خرید کر دینا ان کے اور ان کے والدین کے دلوں میں قدر و منزلت بڑھا دے گی۔
مشاغل میں دلچسپی:
بچوں کے ساتھ مل کر کچھ تخلیقات عمل میں لائی جائیں۔ اگر آپ ترنم کے ساتھ گا سکتے ہوں، دستکاری، سلائی یا لکڑی کا کوئی ہنر جانتے ہوں تو اپنے ان پیارے بچوں کو ایسے مشاغل سے روشناس کرایئے۔ اس طرح کے مشاغل میں بچوں کو شریک کرنے سے ان کی شخصیت پر بہت مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ شخصیت کی تعمیر میں آپ کا یہ ہنر یادگار حیثیت اختیار کر جائے گا۔ قریب رہنے والے، بیرون شہر یا بیرون ملک رہنے والے بچوں سے جب بھی رابطہ ہو، ان کے ساتھ ہر ملاقات کو یادگار بنانے کا خصوصی پلان ہونا چاہئے۔ ہفتہ وار، ماہانہ، ششماہی یا سالانہ، جب بھی ملاقات ہو، بزرگ والدین کا نقش بچے اپنی عمر کے ساتھ ساتھ مضبوط تر اور حسین تر اور یادگار بناتے جائیں۔
ذوق مطالعہ کی حوصلہ افزائی:
بچوں کو پڑھ کر سنانا ایک انتہائی دلچسپ عمل ہے۔ اپنے بچپن کی کتابیں ان کو پڑھنے کے لیئے دی جائیں یا ان کے والدین کے بچپن میں زیر استعمال رہنے والی کتابوں کو مل کر پڑھنے پڑھانے میں خاص مزہ ہے۔ بچوں کو بھی پڑھنے کی تلقین کی جائے۔ اس سے تلفظ، روانی عبارت، لہجہ اور تقریر کی مشق ہو گی۔
ماضی کی یادیں اور تجربات:
بچوں کو اپنے ماضی کی دلچسپ کہانیاں اور واقعات سنائیں، اپنے محلے اور شہر کے خاص کرداروں کا اور ماحول کا تذکرہ کریں۔ دور رہنے والے بچوں کو اپنی آواز میں کہانی، نظم، باہم بچوں کی مجلس، بات چیت کو ریکارڈ کر کے بھیجا جائے یا ویڈیو فلم بنا لی جائے۔ اپنے بچپن اور جوانی کے تجربات کی روشنی میں بچوں کی عمر کے مطابق گفت و شنید کی جائے۔ اپنی ناکامیوں اور نقصانات کو واضح کریں کہ ان کی کیا وجوہات تھیں۔ بچوں سے سوال کیا جائے کہ اگر ان کے ساتھ ایسا ہوتا تو وہ کیا کرتے؟ بچوں کی ذہنی استعداد جاننے کا یہ بہترین ذریعہ ہے اور ان کی رہنمائی کرنے کا بھی۔
شخصیت کی تعمیر:
جب بھی موقع ملے بچوں کی عمر اور ذہنی استعداد کے مطابق ان کے ساتھ کھیلا جائے۔ ان کے بنائے ہوئے گھروں میں مہمان بن کر جایا جائے۔ فٹ بال، لوڈو، کیرم اور اندرون خانہ کھیلوں میں شریک ہوا جائے۔ بچوں میں ہار جیت کا صحیح تصور پیدا کیا جائے اور اعلیٰ ظرفی اور دوسروں کی کامیابی پہ خوش ہونے کی تربیت کی جائے۔
بچے ننھے ہوں یا نوجوان، ان کو بولنے اور اپنا ما فی الضمیر بیان کرنے کا پورا موقع دیا جائے۔ انہماک اور توجہ سے بات سننا، بچے کی شخصیت پہ مثبت اثرات مرتب کرتا ہے۔ بچوں میں یہ ظرف اور حوصلہ پیدا کیا جائے کہ جب ایک بچہ بات سنا رہا ہو تو دوسرا بچہ اس میں مخل نہ ہو۔
ہر عمر کے بچوں کے ذاتی رجحانات آپ کے علم میں ہونے چاہئیں۔ ہر بچہ آپ کو اپنا رازداں ساتھی سمجھے۔ یقین کیجئے اگر آپ اپنے ان معصوم بچوں کے رازداں ساتھی بن گئے، ان کے ننھے منے دکھ اور سکھ آپ کے دل میں ارتعاش اور ولولہ پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئے تو یہ پھول مرجھانے سے بچ جائیں گے۔
اپنے بیٹے اور بیٹی کے بچوں سے دلی محبت پیدا کرنے کا ایک کارگر نسخہ یہ ہے کہ ان کے والدین کو اچھے الفاظ سے یاد کریں۔ یہ نہ ہو کہ بچے کو اپنے دکھوں کی داستان ﴿اپنی اولاد کی نافرمانیوں کے قصے﴾ سنانے لگیں۔ ننھے بچوں کے دل میں ان کے والدین کی عزت و توقیر بڑھانا آپ کے لئے ہی نافع ہے۔ خصوصاً بہو اور داماد کے بارے میں۔
بچوں کو ترجیحات کے تعین کا احساس دلانا ایک اہم فریضہ ہے، یعنی کسی وقت کون سا کام اہم ہے، کون سا بچہ کس عمر میں ہے، اس کے لئے کیا اہم ہے۔ اس ضمن میں نماز، قرآن، اسلامی لٹریچر کی طرف توجہ دلانا، ان کی نگرانی کرنا، بچوں میں باہم مسابقت کرانا اور انعام دینا جیسے امور اہم ہیں۔ پیار و محبت سے تعلیمی مدارج اور کارکردگی کے بارے میں پوچھنا، مشکل میں آسانی تلاش کر کے دینا، بچوں کے تعلیمی رجحانات کا اور دیگر مشاغل کا بنظر غائر جائزہ لینا اور ان کے والدین کے ساتھ گفت و شنید کرنا اور مسائل کا حل تلاش کرنا، ترجیحات کے تعین میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
گھریلو امور میں دلچسپی لینا:
اگر والدین اور بچوں میں کوئی تنازعہ ہو جائے، ﴿تعلیم، روزگار یا شادی کے معاملے میں﴾ تو غیر جانب داری سے حالات کا جائزہ لینا اور بچے کے مؤقف کو ٹھنڈے دل سے سننا اور والدین اور بچوں کے درمیان مفاہمت کی راہ تلاش کر کے دینا، بزرگ والدین کا فرض ہے۔
بچیوں سے خصوصی لگاؤ:
لڑکیوں کی تعلیم و تربیت اور ان کو شائستگی اور رکھ رکھاو سکھانا خصوصی توجہ چاہتا ہے۔ بچیوں کے رجحانات کا ان کی عمر کے مطابق خیال رکھا جانا چاہئے۔ بچیوں کی جذباتی عمر ایک مضبوط، با اعتماد شخصیت کا سہارا چاہتی ہے۔ لڑکیاں قاہرانہ نظر سے زیادہ محبت و شفقت اور رحمت کی نظر کی طلب گار ہوتی ہیں۔ بزرگوں کا دستِ شفقت ان کی شخصیت کی تکمیل کرتا ہے۔
چند احتیاطیں
کچھ معاملات اور باتیں ایسی بھی ہیں جن سے پرہیز کرنا چاہیئے۔
کھلانے پلانے میں بے اعتدالی:
بزرگ والدین کو اپنے بچوں کی نسبت ان کے بچوں کو کھلانے پلانے، ہر وقت کچھ نہ کچھ دینے میں لطف آتا ہے۔ لیکن بعض اوقات یہ معاملہ خرابی کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ بچوں کو ان کی عادتیں خراب کرنے میں آپ کا کوئی عمل دخل نہیں ہونا چاہئے۔ قریب رہنے والے بچے اور دور رہنے والے بچوں میں یہ فرق بھی ہوتا ہے کہ قریب رہنے والے بچوں کی عادات، مزاج، گھریلو ماحول اور روز مرہ کے اتار چڑھاؤ سے آپ واقف ہوتے ہیں۔ عقل مندی کا تقاضا یہ ہے کہ بچوں کے والدین خصوصاً والدہ نے ان کے کھانے پینے کا جو معمول بنایا ہے اس میں خلل واقع نہ ہو۔ ماں سے بڑھ کر کوئی نہیں جانتا کہ بچے کو کس وقت ، کتنا اور کیا کھانے کو دیا جائے۔ ضروری نہیں کہ جو چیزیں آپ اپنے بچپن میں کھاتے تھے یا اپنے بچوں کو بے دریغ کھلاتے تھے ، ان کے لئے بھی مناسب ہوں۔
والدین کو بے وقعت کرنا:
بچوں کے قلب و نظر میں ان کے والدین کو بے وقعت کرنا ایک اخلاقی گراوٹ ہے۔ خصوصاً بہو یا داماد کے بارے میں منفی طرز عمل اختیار کرنا، ان کی گستاخیوں یا نافرمانیوں کو بچوں کے سامنے زیر بحث لانا، یا بچوں کے ذریعے اپنی کسی حق تلفی یا رنجش کا انتقام لینا، اپنے پاؤں پہ کلہاڑی مارنا ہے۔ بچے ایسے لوگوں کی ہرگز قدر نہیں کرتے جو ان کے والدین کے بارے میں منفی سوچ رکھتے ہوں۔ بہو اور داماد کا آپ سے، صہر‘‘ کا رشتہ ہے مگر ان کے حوالے سے بچوں کے ساتھ آپ کا ’’نسب‘‘ کا رشتہ ہے۔ اپنے نسب کے بارے میں حد درجہ حساس اور محتاط رویہ اسی صورت ممکن ہے جب آپ ان کے والدین کو عزت و توقیر سے نوازیں گے۔
رویے میں فرق:
گھروں میں جہاں ایک سے زیادہ بیٹے بیٹیاں موجود ہوتے ہیں، ان کے بچوں کے ساتھ بڑوں کا رویہ بھی قابلِ غور ہے۔ جس بیٹے سے ماں باپ خوش ہیں، اس کی بیوی بھی پیاری لگتی ہے۔ اور اسی لحاظ سے اس کے بچے بھی دادا دادی کے دلارے ہوتے ہیں۔ دوسری طرف بہت سی بہوؤں میں سے کسی سے کسی خاص رشتہ داری یا نسبت یا کوئی اور وجہ بہوؤں کے درمیان تفریق کا باعث بنتی ہے، اور پھر بچے بھی خواہ مخواہ خاندانی سیاست کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ رویہ بھی غیر مناسب ہے۔ ساس سسر ﴿خصوصاً ساس کو﴾ گھریلو معاملات میں عقل و دانش کا ثبوت دینا چاہئے۔ اسی طرح دامادوں کے ساتھ یا نواسے نواسیوں کے ساتھ معاملہ ہوتا ہے۔ لگاؤ اور محبت اپنی جگہ، مگر معاملات مبنی بر عدل اور یکساں ہونے چاہئیں۔
بے جا طرف داری:
ایک اہم معاملہ جو عموماً گھروں میں بے چینی کا باعث بنتا ہے، بیٹی کی اولاد کے سامنے بیٹوں کی اولاد یا اس کے مخالف معاملے میں ترجیح اور افراط و تفریط ہے۔ ماموں، پھوپھی یا چچا، تایا کے بچوں میں دوری، منافرت، بلاوجہ مسابقت، شریکے، کا احساس پیدا کرنا، بزرگوں کے طرز عمل کا شاخسانہ ہو سکتا ہے۔ کسی ایک داماد یا بہو کی بے جا حمایت، طرف داری بچوں پر بھی برے اثرات ڈالتی ہے۔
توہین آمیز رویہ:
عموماً دادی کی طرف سے اس طرح کے جملے، میرا بیٹا تو بہت اچھا تھا، جب سے تمہاری ماں آئی ہے……..، سن کر بچے ہرگز اپنی دادی سے الفت محسوس نہیں کر سکتے۔ ان سے لازماً اجتناب کیا جائے۔
اپنی رائے پر اصرار اور ضد:
اگر بچوں کی تربیت کے معاملے میں بزرگ والدین، کی رائے بچوں کے والدین سے مطابقت رکھتی ہو تو بزرگوں کو زیادہ اعلیٰ ظرفی اور وسعت قلبی کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ اختلاف کی صورت میں والدین کی خواہشات کے پیش نظر اپنی رائے سے دست بردار ہو جانا چاہئے، تاہم اولاد کو بھی ادب و احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے خواہ مخواہ اور بے جا ضد نہ کرنی چاہئے اور درست بات کو تسلیم کرنا چاہیئے۔ بعض اوقات بچے کا نام رکھنے سے لے کر جو مخالف شروع ہوتی ہے تو بچوں کے رشتے کرنے تک برقرار رہتی ہے۔ بچوں کے معاملات میں فیصلہ اور حتمی رائے بہر حال ان کے والدین کا حق ہے۔
بعض بزرگ والدین ، رشتوں ناطوں کے معاملے میں ایسا رویہ بنا لیتے ہیں جس سے اپنی اولاد اور بچوں کو باغی تو بنایا جا سکتا ہے، اپنا حامی نہیں۔ یہ طرز عمل سخت نقصان دہ غیر شرعی اور قابلِ گرفت ہے۔ رشتے ناطے کرنے کی ذمہ داری بہر حال اپنے والدین کی ہی ہوتی ہے۔ اپنی رائے دینا، اپنے تجربات اور دلائل کی بنا پر کچھ اصرار کرنا آپ کا حق ہے مگر جبر کرنا، ضد سے اپنی اہمیت کو کیش کرانا، بچوں کی شادیوں میں رخنے ڈالنا، خوشی سے شریک نہ ہونا، دل میں رنجش رکھنا، قطع تعلق کر لینا یا دھمکی دینا سخت معیوب ہے اور بزرگ والدین کے شایانِ شان ہرگز نہیں ہے۔
منفی طرز عمل:
اگر آپ نے بچوں کے دلوں میں اپنی اہمیت اجاگر کرنے کے لیے کوئی ایسا قدم اٹھایا کہ جس کام سے بچے کے والدین منع کرتے ہوں اور آپ نے چوری چھپے اس کو موقع دیا، مدد کی، پھر چھپانے کے طریقے بتائے تو آپ نے اپنی نظروں میں بھی اور بچوں کی نظروں میں بھی خود کو گرا لیا۔ یہ طرز عمل جتنا بچوں کے لیے نقصان دہ ہے اس سے کہیں زیادہ آپ کی شخصیت کے لیے باعث وبال ہے۔ ہاں، یہ امر قابلِ تعریف ہے کہ آپ اپنے بچوں کو اس کام میں مدد دیں، تعاون کریں جس کو بچے کے والدین مشکل سمجھ کر ان کو کرنے نہیں دیتے اور آپ اس کو اپنے تجربے سے کروا لیتے ہیں۔ بچوں میں خود اعتمادی پیدا کرنے کے لیے آپ کیا کیا چھوٹے بڑے کام کر سکتے ہیں، اس پر غور کیا کیجئے۔
بچوں کو مشتعل کرنا:
بچوں کو ہر وقت دوسرے کے سامنے نظمیں، تقریریں وغیرہ سنانے پر مجبور نہ کریں۔ بچے کی ذہنی اور قلبی کیفیت ہر وقت ایک جیسی نہیں ہو سکتی۔ ہر ملاقات پر ان کو کتابیں سنانے یا ان کو پڑھنے پر مجبور کرنا دل میں تنگی اور انقباض پیدا کرتا ہے۔ ہر وقت ہر کام، ہر کھیل ، ہر واقعہ، کہانی، لطیفہ یا ایک ہی جیسا طرزِ عمل ﴿ہر بچے کے ساتھ﴾ مناسب نہیں ہوتا۔ اگر آپ کو بچوں سے قلبی تعلق پیدا کرنا ہے تو جبر سے یہ کام نہیں ہوتا۔ یہ پورے صبر و ثبات کا متقاضی ہے۔ بچوں کو بلاوجہ قابو میں لانے کی کوشش کرنا ان کو مشتعل کرناہے۔
بچوں میں امتیاز برتنا:
اپنے پوتے پوتیوں، نواسے نواسیوں میں کسی ایک سے کبھی ایسی بات نہ کیا کیجئے کہ یہ تو سب سے ہوشیار ہے، ذہین ہے، یہ میرا فرماں بردار ہے، یہ تو اپنے باپ کی طرح فرماں بردار ہے اور یہ اپنے باپ یا ماں کی طرح ہمیشہ سے ضدی اور گستاخ ہے۔ اپنے ان بچوں کی کامیابیوں پہ یکساں خوشی کا اظہار کیجئے۔ اپنی کسی بیٹی یا بیٹے کی حد درجہ محبت میں آ کر ان کے بچوں کے ساتھ ہمیشہ نرم رویہ رکھنا اور کسی دوسری اولاد کے بچوں کے ساتھ معاندانہ رویہ، ان کی کامیابیوں اور خوشیوں میں دل کے پورے افراح کے ساتھ شریک نہ ہونا سخت ناانصافی ہے۔ یقین کیجئے اللہ تعالیٰ نے آپ سے اس رعیت کے بارے میں سوال کرنا ہے۔ جذبات، احساسات ، خوشی، غمی اور مالی و اخلاقی طور پر سب کے ساتھ انصاف کرنا آپ کے اجر و ثواب کو قائم رکھے گا۔ کسی بچے کو خوب بڑھانا اور کسی کی اہمیت کو گھٹانا اپنے خاندان کی دیواروں میں شگاف ڈالنے کے مترادف ہے۔ اپنے دل کے میلان یا دوسروں کی طرف سے اکسانے پہ بچوں کی صلاحیتوں کو گھٹانا بڑھانا اپنی عزت و توقیر کم کرنے کے مترادف ہے۔ بچوں میں باہم رقیبانہ اور حاسدانہ جذبات پیدا کرنا ایک بہت بڑا اخلاقی عیب ہے۔
بے جا خود نمائی:
اپنی جوانی کی غیر اخلاقی سرگرمیوں کو فخر سے بچوں کو بتانا حد درجہ حماقت ہے، یا پھر اپنے کارناموں کو نمک مرچ لگا کر پیش کرنا کہ بچے جان جائیں کہ یہ سراسر جھوٹ ہے۔ بچہ فطرت کے قریب ہوتا ہے۔ وہ سچ اور جھوٹ کا ادراک کر لیتا ہے اگرچہ اس کو اس کے اظہار کا طریقہ نہ آتا ہو۔ ہر بات میں اپنی تعریف کرنا، اپنے گن گانا، ہر وقت دوسروں پہ خود کو ترجیح دینا، شیخی بگھارنا، درحقیقت اپنی کمزور شخصیت کا اظہار ہے۔
ننھیال ددھیال کا فرق رکھنا:
لڑکوں کو لڑکیوں پر ترجیح دینا، یا ننھیال /ددھیال والوں کی برائیاں کرنا، یا بچوں کا ننھیال/ددھیال والوں سے قلبی تعلق برداشت نہ کرنا، لڑکیوں کی پے درپے پیدائش سے دل تنگ ہونا اور ان کے مقابلے میں لڑکے کی آؤ بھگت کرنا، لڑکیوں کے والد کو بے چارہ، بوجھ کے تلے دبا ہوا جیسے احساسات دلانا، ایک طرح کا گناہ میں ملوث ہونا ہے ۔لڑکیوں کی پیدائش پہ انقباض محسوس کرنے والوں کی مذمت قرآن پاک میں کی گئی ہے۔
خواہ مخواہ کا رعب ڈالنا:
بزرگوں کو اپنی بزرگی اور مقام و مرتبے کا احساس دلانے کے لیے رعب ڈالنے کی ضرورت نہیں ہونی چاہئے۔ سلام کروانے کے لئے بچوں پہ سختی کرنا کوئی اعلیٰ اخلاق کی مثال نہیں۔ اعلیٰ اخلاق تو یہ ہے کہ آپ خود بڑھ کر بچوں کو سلام کریں، محبت سے، پیار سے، اور یہی سنت رسول اللہ محمد ﷺ ہے۔ بچے آپ کو وہی کچھ لوٹائیں گے جو آپ ان کو پہلے عطا کریں گے۔
حضورﷺ کا بچوں سے طرزِ عمل:
حضورﷺ ہمارے لیے اسوہ کامل ہیں، ہمیشہ اسے پیش نظر رکھیئے۔
بچوں کے حوالے سے حضور اکرمﷺکا طرز عمل انتہائی مشفقانہ تھا۔ سیرت رسولﷺ کے مطالعے سے یہ بات روشن ہو کر ہمارے سامنے آتی ہے کہ نبی آخر الزماںﷺ بچوں سے محبت ہی نہیں کرتے تھے بلکہ ان کی عزت و توقیر کا بھی پورا خیال رکھتے تھے۔ ان کی عزت نفس کو پوری اہمیت دیتے تھے۔ ان کے جذبات و احساسات کو پامال نہیں کرتے تھے۔
بحیثیت والد، اور نانا کے آپﷺکا طرزِ عمل ہمارے لیے روشن مثال ہے۔ اپنے دوست احباب کے چھوٹے ننھے بچے، راستہ چلتے ہوئے، اپنی ازواج مطہرات کے ساتھ آئی ہوئی ان کی اولاد، دور و نزدیک کے قرابت دار بچے، اجنبی بچے، غرض بچوں سے حضورﷺ کی محبت ایسی تھی گویا کہ ان کی اپنی اولاد ہو۔ بچوں کو گود میں بٹھاتے، کندھے پہ سوار کرتے، نماز میں بچوں کو اٹھا لیتے، منہ چومتے، غمگین بچوں کا دل بہلاتے ، بچوں کو تحفہ دیتے، غرض اپنی دلی محبت کا اظہار ہر ممکن طریقے سے کرتے، اور ساتھ ہی تعلیم و تربیت میں بھی کوئی کمی نہ آنے دیتے۔ بے تکلفی سے باتیں کرتے اور ان کی سنتے تھے۔ حضور اکرم محمدﷺ نے فرمایا:
’’جنت میں ایک گھر ہے جسے’دارالفرح‘ ﴿خوشیوں کا گھر﴾ کہا جاتا ہے۔ اس میں وہ لوگ داخل ہوں گے جو بچوں کو خوش رکھتے ہیں۔ ﴿کنز العمال﴾
اس دور میں جب کہ ہر مسلمان غفلت و بے ہوشی کے عالم میں زندگی گزار رہا ہے۔ نابالغ بچوں کی شخصیت ایسی ہے جس کے بارے میں وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ یہ اللہ کی نظر میں ناپسندیدہ نہیں ہیں۔ جب تک بچہ نابالغ ہوتا ہے، معصوم ہوتا ہے۔ ان سے اس احساس کے ساتھ ہی رحمت و شفقت کی جائے تو یقینا ہمارے دلوں میں اللہ تعالیٰ سے قرب کا احساس بیدار ہو جائے گا۔ ایک بڑے سے بڑے دین دار آدمی سے بہر حال ایک معصوم بچہ اللہ کی نظر میں زیادہ پیارا ہے۔
بچوں کو خوش رکھنے کے بے شمار طریقے ہیں۔ ہر فرد اپنی استعداد و استطاعت کے مطابق ان کو خوش رکھ سکتا ہے اور اپنی آئندہ نسل کے دلوں میں اپنی محبت کے نقوش جاگزیں کر کے اپنی عاقبت کا سامان کر سکتا ہے۔ اور اپنے لیے صدقہ جاریہ کا اہتمام کر سکتا ہے۔
دعا ایک لازمی امر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ فرقان میں دعا سکھائی:
رَبَّنَا ھَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِیّٰتِنَا قَرَۃ اَعَیْنٍُ وَ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَاماً ﴿۵۲:۴۷﴾
’’اے ہمارے رب، ہمیں اپنی بیویوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک دے اور ہم کو پرہیزگاروں کا امام بنا۔‘‘
اس دعا میں، متقین کا امام، بننے کی خصوصی درخواست سکھائی گئی، یعنی وہ نسل جو ہم پیچھے چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ وہ ’’متقین‘‘ میں سے ہے………اور ہم بحیثیت’’راعی‘‘ کے رعیت چھوڑ کر جا رہے ہیں۔
بچوں کو اس بات کا احساس دلانا چاہئے اور ان کی عادت بنانی چاہئے کہ وہ اپنے بزرگوں کے لئے ہمیشہ دعا گو رہیں، نیز فوت شدہ بزرگوں کے لئے دعائے مغفرت کرتے رہیں۔ ان کی نیکیوں کو یاد کرنا، کروانا اور دعا کرنا ایک اہم نکتہ ہے۔
ہمارے ہاں والدین کے حوالے سے تو بہت لٹریچر موجود ہیں کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت کے حوالے سے اپنا فریضہ کس طرح ادا کریں، لیکن غور کا مقام یہ ہے کہ خاندان میں ’’بزرگ والدین‘‘ کا کردار وقت کے ساتھ ساتھ کس طرح مضبوط و مستحکم ہونا چاہئے کہ وہ اپنے ’’بیاج‘‘ کو خسارے سے بچا سکیں۔ ایک جوڑے کی اولاد کا دائرہ وقت اور عمر کے ساتھ ساتھ وسیع ہوتا جاتا ہے۔ کل تک جو صرف ماں باپ تھے، دادا دادی اور نانا نانی بن جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ زندگی دیتا ہے تو ان کے سہرے کے پھول بھی کھلتے دیکھتے ہیں۔ اس طرح نئے خاندان بھی وسیع تر خاندان بن جاتے ہیں۔ بزرگ والدین کے مؤثر کردار اور خاندان کے استحکام کے پیش نظر ہی یہ تحریر لکھی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کے ہر والدین کو اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
ڈاکٹر بشریٰ تسنیم